ارشادِ باری تعالیٰ ہو رہا ہے۔ ’’ میرا رسولؐ کچھ نہیں کہتا ماسوائے کہ وہ وحی ہو ‘‘۔ (مفہوم ِ آیت )اور اس آیت کے ضمن میں رسول اکرم ﷺ کی اس حدیثِ مودت کی طرف نظر کی جائے تو رسالت مآب کچھ اس طرح لب کشاہیں۔ ’’ فاطمہؑ میرا ٹکڑا ہےجو اس کو خوش کرے گویا اس نے مجھے خوش کیا اور جو اس کو ناراض کرے گویا اس نے مجھے ناراض کیا ۔ فاطمہؑ سب سے زیادہ مجھے عزیز ہے۔ ‘‘جس طرح موسیٰ علیہ السلام کو توریت کے حصول کے لیے خدا اند ِ متعال نے چالیس روز وادیِ مقدسِ طوٰی پر عبادت و تسبیح و تہلیل و ثناء میں مصروف رکھا اور جب حضرت موسیٰ ؑ کامیابی سے ہمکنار ہوئے تو خدائے لم یزل نے توریت جیسی آسمانی و الہامی کتاب عطا فرمائی ۔اور ادھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ صادق و امین ، یسین و طہٰ ، مبشر و نذیر ، مدثر و مزمل، رحمۃ اللعالمین ، شفیع المذنبین ، خاتم النبین نبیٔ مرسل حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو ، مزمل ؐ کو مزید ایک و عبادت کا مرحلہ طے کرنے کا حکم دیا۔ کہ حضرت خدیجہ سے چالیس دن دور رہ کر عبادتِ الہٰی میں گزریں اور اس کے بعد حکمِ پروردگار ہوا کہ خدیجہ کے گھر تشریف لے جائیں اور یوں وہ خلتِ اقدس گرامی بتولِ عذرا کو حضرت خدیجہؑ و رسول اکرم ؐ کے گھر کی زینت بنا یا گیا۔ اور یہ پاک و طاہرہ بی بیؑ کہ جو اپنے ہر ہر فعل و عمل میں قرآن کی تفسیر ہے۔ فصاحت و بلاغت ، شرم و حیا ، عبادت و ریاضت ، سچائی اور ایثار ، شجاعت و سخاوت ، سلیقہ و طریقہ ، عالمہ غیر معلم، جان رسول ؐ، شان و ہمراز علیؑ ، مادر جوانانِ جنت، زینب و کلثوم جیسی بہادر زور نڈر بیٹیوں کی تربیت و پرورش کی ذمہ دار !!!اور نہ جانے کتنے فضائل و مناقب فاطمہ زہرؑا ہیں جن سے بشر أنشا بھی نہیں ہیں لیکن ان تمام فضائل کے باوجود اس مقدس اور صدیقہ بی بی ؑکے غم بھی اتنے ہی ہیں جن کو بی بیؑ اپنے سینے میں ہی ساتھ لے کر اس بے وفا دارِ فانی سے کوچ کر گئیں ۔ وہ بی بیؑ جو اپنے ساتھ( چھوٹی ہی سی عمر میں والدہ کو شعیب ابی طالب میں زہریلے پتوں کے کھانے سے انتقال ہوتا دیکھ چکی ہیں ) ہوئے سب سے بڑے ظلم کو اپنے اندر اس طرح جذب کر لیتی ہیں کہ ماں کی کمی کیا ہوتی ہے بخوبی جان چکی ہیں اس لیے رسول اکرم ؐ جیسے پہاڑ انسان کو بھی جب کفار و مشرکین کی جانب سے دُکھ ملتا ، اذیت ملتی تو یہ کم سن بی بی ایک ماں کی مانند رسول ؐ کے تمام دکھ و تکلیف کو سہتی جاتی اور ایک ماں کی مانند ان کے زخم کو صاف کر کے مرہم لگاتی جاتی اس لیے رسول ؐ کے لب ہائے مبارک سے ’’ ام ابیہ ‘‘ کا لقب پاتی ہیں۔ رسول ؐ کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں تو رسول ؐ ان کی تسکینِ دل اور قرار جان ہیں بابا کے بغیر فاطمہ کا کوئی دن مکمل نہیں ۔
مردوں کے اُس معاشرہ میں جہاں ہمیشہ عورتوں کو غیر ضروری یا بعض اوقات ضروریات کی تسکین کا ذریعہ سمجھا جاتا رہا خاندان رسالت میں فاطمہ زہراؑ کی عزت و تکریم نایقین حد تک حیران کن تھی جس کی مثال صدیقہ طاہرہ کی زبانِ مبارک میں حدیث کساء میں مروی ہے کہ فاطمہؑ کے بابا ان کے شوہر اور ان کے دو فرزند ہیں ۔ خدا وند متعال اور ان کے رسولؐ و آلِ رسولؐ کی ذوات مقدسہ معاشرے میں عورتوں کے مقام کی وضاحت کرتی رہی۔ کیونکہ تاریخ شاہد ہے۔
ہمیشہ نڈر بے باک سچی اور بہادر ماں ہی نڈراوربے باک صاف گو اور بے مثال اولاد کی پرورش کر سکتی ہے اس لیے اسلام حقوق نسواں کے بارے میں بھی زور دیتا ہے ۔ اسلام امن و محبت کے ساتھ رہنے اور ایک دوسرے کو احترام دینے کا قائل ہے لیکن ساتھ ہی امر بالمعروف نہی المنکر کا بھی حکم دیتا ہے ان مندرجہ بالا سطروں کا مقصد یہ ہے کہ اسلام عورت کو انسانی زندگی کا محور گردانتا ہے اس لیے نمونہ عمل کے طور پر جناب سیدہ سلام اللہ کا کردار اس بات کا گواہ ہے کہ فاطمہؑ کی اولاد جیسی اولاد کائنات میں کسی کی نہیں ۔ انسان کی عزت عورت کی عزت برائی کی نشاندہی اچھائی کی ترغیب عائلی زندگی میں عورت و مرد کا کردار مظلوم کی حمایت اور ظالم کو آشکار کر کے کیفرکردارتک پہنچانا آل فاطمہؑ کا شیوہ ہے ۔ یہ تمام اسوۂ و ہ خاتون ہی اپنی اولاد میں منتقل کر سکتی ہے جو اپنی ذات میں مجسم اطاعت گزار احکام خدا وندی ہو۔
آج ہم دنیا میں دہشت گردی کا ذکر سنتے اور اس پر چند جملے بول کر سمجھتے ہیں کہ اپنا کرادر ادا کر دیا ۔ حضرت علی ؑ نے جہاں دنیا میں ظالمین کے دوسرے الفاظ کہہ دوں کے دہشت گردوں کو بے نقاب کر کے کیفر کردار تک پہنچایا اور تلواروں کے ذریعے جہاد باسیف کی بہترین اور بے مثال نظیر قائم کی ۔وہاں سیدہ نساء العالمینؑ نے اسلام کی سب سے بڑی دہشت گردی کو اس انداز سے بے نقاب کیا جو جہاد بالسان کی بے مثال و بے نظیر عکاس تھی ۔ تاریخ کا سیاہ ترین باب مظالم کربلا و کوفہ و شام ہے ۔ جس کی تمام تر کافرانہ اور مظالمانہ کارستانیوں کو اولادِ علیؑ و فاطمہؑ نے اپنی اُسی بے بہترین و بے مثال پرورش کے ذریعے رہتی دنیا تک کے لیے آشکار کر دیا ۔ جس کی تربیت نہ صرف زبانی بلکہ عملاََ حضرت علیؑ اور فاطمہؑ کے ہر عمل و فصل وافکار سے عیاں تھا ۔ حضرت خاتون جنت ؑنے اپنی اولاد کے ساتھ چند برسوں کا عرصہ گزارا لیکن اپنے تمام تر اوصاف حمیدہ اپنی اولاد میں تمام تر خوبصورتیوں کے ساتھ سمو دیئے ۔ کیونکہ یہ بی بیؑ جب لب کشاء ہوئیں تو دربار میں فصاحت و بلاغت کے چشمے رواں کر دیئے ۔ اور جانِ رسالت مآب جن کی دل سوفتگی ان کے ان الفاظ سے عیاں ہیں۔
بابا جان آپ کے بعد میں بلکل اکیلی رہ گئی ہو، حیران ہو، پریشان ہو، میری آواز ڈوب گئی ہے میری کمر شکستہ ہو گئی ہے میری زندگی تلخ ہو گئی ہے اور کبھی اس طرح بین کرتی تھیں ۔ جو پیغمبر اکرم ؐ کی خاک پاک کو سونگھے اس کے لیے سزا وار ہے کہ پھر کوئی خوشبو نہ سونگھے۔ اے بابا جان! آپ کے مجھ پر اس قدر مصائب پڑے اگر روز روشن پر پڑتے تو وہ رات کی طرح تاریک ہو جاتے ۔
یہ جملے ان لبا ہائے مبارک سے جاری ہو رہے تھے جن کے مصدق ہونے کی تصدیق رسولؐ اور ان کا خدا تک کر رہا ہے ۔ ایک دن ایسا بھی آیا کہ وہ بی بیؑ جس کو صدیقہ نے نام سے منسوب کیا گیا تھا اور اس بی بی ؑکے الفاظ کی صداقت کو گواہی کہی۔ رضوانِ جنت نے ’’خیاط ‘‘ بن کر دی ہو ۔ ان کو بھرے دربار میں جھوٹا گردانا جاتا ہے ۔ ایک عام انسان اگر کسی امر میں حق پر ہو اور اس کو جھوٹا گردانا جائے یا اس سے گواہی مانگی جائے تو وہ اندر سے ٹوٹ جاتا ہے ۔ چہ جائیکہ رسول اکرم ؐ کی جگہ کا ٹکڑا، آنکھوں کی ٹھنڈک، صدیقہ ،طاہرہ محدثہ ، زہرا دختر فاطمہ زہرا ؑبی بی لوگوں کو یاد بھی دلاتی رہی کہ جس منصب پر آج سے چند مہینوں پہلے میرے شوہر، عم رسول ؐ ، جانشنِ پیغمبر کو تمہارے آنکھوں کے سامنے میرے بابا نے فائز کیا تھا اس کی تصدیق کرو لیکن تصدیق تو در کنار فاطمہؑ ۔ دق الباب کرتی رہ گئیں اور اہل مدینہ نے دروازے تک نہ کھولے ۔
حضرت ام سلمہ روایت کرتی ہیں کہ ایک روز بعد رسول اکرم ؐ میں دختر رسول کے خانہ اقدس پرتشریف لے گئی کہ حالِ زہرا دریافت کروں تو انہوں نے جواب میں پُر معنی جملے ارشاد فرمائے ’’ اے ام سلمہ! ؑ آپ میرا حال کیا دریافت کرتی ہیں کیا حال تو یہ ہے کہ رنج و غم کے درمیان زندہ ہو۔ ایک طرف تو میرے بابا مجھ سے جدا ہو گئے اور دوسری جانب ان کے جانشین ( حضرت علیؑ) کے اوپر ظلم ہو رہا ہے ۔ خدا کی قسم احترام کو پارہ پارہ کر دیا گیا لیکن میں جانتی ہوں کہ یہ سب بدر کے کینہ ہے ۔ اور اُحد کا انتقام ہے جو منافق کے دلوں سے چھپا ہوا تھا ۔‘‘
جس کا اقرار سالوں بعد یزید پلید نے دربار میں کیا تھا کہ آج میں نے بدر و اُحد کا بدلہ لے لیا تاریخ گواہ ہے مظالم کربلا کا آغاز رسولؐ کی وفات کے ساتھ ہی شروع ہوا۔ وہ بی بی جو مصحف فاطمہؑ کی امین تھیں جانتی تھی کہ میرے بچوں کے ساتھ بھی وہی ہونے والا ہے جو کچھ آج ہمارے ساتھ ہو رہا ہے ۔ خواہ وہ گھر کا جلنا ہو، دل کے ٹکڑوں کی شہادت ہو ، رسن بستہ ہو کر گلی کوچوں میں پھرانا ہو یا نبی زادوں کو دربار میں لانا ہے یہ کفریہ اقدام کی ابتدا ء رسولؐ کی آنکھ بند ہوتے ہی ہو گئی ۔کجا کہ نبی زادی کے دربار میں حاضری اور گواہ کی جرح لگا کر صدیقہ کو جھٹلانا۔ اس سے بڑھ کر اس بی بیؑ کو دربار میں اس طرح کھڑا رکھا جانا کہ وہ اپنی بات کو کہنے کے لیے انتظار کرے۔ کون بی بیؑ جس کے اپنے پر خدا کا رسولؐ ادب سے کھڑے ہو کر اپنے بیٹی کے ہاتھوں کو بوسہ دے کر فرمایا کرتے تھے۔ اے فاطمہؑ! تم مجھ بابا جان ہی کہو ۔ کیوں کہ اس سے میرا دل زندہ ہوتا ہے اور خدا زیادہ خوش ہوتا ہے ۔
شیخ طوسی نے ابن عباس سے سندِ معتبر سے روایت کی ہے کہ جناب رسالتؐ کا وقت آخر قریب آیا توآپ نے گریہ کیا اور اس قدر روئے کہ آپ کی ریش مبارک پر آنسو جاری ہوئے پوچھا کیا یہ سببِ گریہ کیا ہے ۔ فرمایا میں اپنی اولاد پر اور کچھ میری امت کے بُرے لوگ ، لوگ میری وفات کے بعد ان سے سلوک کریں گے ۔ اس پر رویا ہو، گویا میں اپنی بیٹی فاطمہؑ کو دیکھ رہا ہوں کہ لوگ میری وفات کے بعد ظلم کر رہے ہیں اور وہ ( یا ابتاہ ) اے بابا ! کہہ کر پکارتی ہیں اور میری امت میں سے کوئی شخص اس کی مدد نہیں کرتا ۔ غرض کہ اس افتاد کے پیش نظر جو ولایت و نبوت کی حامی و مددگار تھیں ۔ ولایت و نبوت و عصمت کے نافرمانوں سے ناراض دارِ فانی سے کوچ کر گئیں۔
اور وصیت فرمائی کہ ’’ ان لوگوں میں سے کسی ایک کو بھی میرے جنازے پر نہ آنے دینا ۔ جنہوں نے مجھ پر ظلم کیا اور میرا حق غضب کیا ہے ۔کیونکہ وہ میرے اور رسول ؐ کے دشمن ہیں ۔ ان میں سے اور ان کے پیروکاروں میں سے کسی ایک کو میرے جنازے پر نماز نہ پڑھنے دینا اور مجھے رات میں دفن کرنا۔ ‘‘
زیارت امام حسین ؑ میں رقم ہے ۔ (مفہوم )
کہ جنہوں نے ظلم کیا ان پر لعنت اور جو اس پر راضی رہے ان پر بھی لعنت ۔ یہاں بی بیؑ نے بھی اس بات کی نشاندہی کی کہ جنہوں نے ان مظالم میں راہ ہموار کی اور آج بھی سیدہؑ کی قبر اطہر کو مظلومیت کی منہ بولتی تصویر بنا کر رکھا ہے۔ بی بی خاتون جنتؑ ان سے ناراض ہیں ۔
وہ لوگ ( آل سعود ) جن کے اپنے قبرستان میں قبروں کو تزئین اور آرائش سے آراستہ کیا جاتا ہے ۔ ان کے متعصبانہ احکام پر رسول اللہ ؐ کی دخترِ اطہر کی قبر مبارک کا نشان تک نہیں ۔ بحیثیت مسلمان حکومت وقت جو کہ عربوں کی دوستی کا دم بھرتے رہے۔ ان 70 سالوں میں کسی نے بھی ان امور پر رائے تو دور اشارہ دینے کی بھی ہمت نہیں رکھتے لیکن بحیثیت مسلمان ہمارا فرض ہے کہ ایسے اقدامات کریں کہ آلِ سعود اپنے کردار میں خود تذلیل کا شکار ہو کر بی بیؑ کے روضے کی تعمیر کا اعلان کریں۔ لکھنے کو بہت کچھ ہے لیکن اختتام ضرورت کا تقاضہ ہے ۔
آخر میں یہ سطور ہی غمِ زہرا ؑ کی عکاسی کرسکتے ہیں کہ امیر المومنین علی علیہ السلام نے فرمایا : خدا کی قسم یہ ایک ایسی مصیبت ہے کہ جس پر کوئی تسلی دینے والا نہیں اور ایک ایسی بڑی مصیبت ہے کہ جس کا کوئی عوض نہیں ۔