حیدرآباد۔9؍جون (پی ایم آئی) بانیٔ اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دختر شہزادیٔ کونین بی بی سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے مزارِ مبارک کی دوبارہ تعمیر کا مطالبہ کرتے ہوئے سوگوارانِ سیدہ کونینؐ 8شوال بمطابق 12 جون 2019 کو دنیا کے مختلف ممالک کے شہروں میں عالمی سطح پر انہدامِ جنت البقیع کے سوگ میں احتجاجی پروگرام منظم کرتے ہوئے دشمنِ اہلبیتؑ آلِ سعود حکومت سے بی بی سیدہؐ کی مزارِ مبارک کی تعمیر کا مطالبہ کریں گے۔ واضح رہے کہ8شوال 1345ھ بمطابق 21؍اپریل 1925ء میں آلِ سعود کی حکومت نے ایک منصوبہ بند طریقہ پر جنت البقیع اور جنت المولا کو منہدم کروادیا تھا۔ اس تاریخ سے آج تک ہر سال دنیا کے گوشے گوشے میں انہدام جنت البقیع کے غم میں ناصرف شیعانِ حیدر کرارؑ بلکہ برادرانِ اہلسنت بھی جگر گوشۂ رسولؐ بی بی فاطمہؐ کے مزار مبارک کو ڈھادیئے جانے کے خلاف یومِ سیاہ کے طور پر مناتے ہیں۔ اس کی دوبارہ تعمیر کا مطالبہ کرتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود دشمنِ آلِ رسولؐ آلِ سعود حکومت سرد مہری سے کام لیتے ہوئے آلِ عمران سے اپنی دشمنی کا کھلا ثبوت پیش کرتے ہیں۔ جاریہ سال بھی بڑے پیمانے پر احتجاجی پروگرام کو قطیعت دی جارہی ہے۔ اسی سلسلے کی کڑی کے طور پر ہندوستان کے پایہ تخت دہلی میں جنتر منتر کناٹ پیالیس پر احتجاجی دھرنا منظم کیا گیا ہے۔ اس بین الاقوامی سطح کی دھرنا پروگرام میں ہندوستان کے مختلف شہروں کے علاوہ بیرونی ملک سے بھی مومنین اس پروگرام میں حصہ لینے کی اطلاعات ملی ہے۔ واضح رہے کہ عالمی سطح پر بقیع آرگنائزیشن نامی تنظیم انہدامِ جنت البقیع کے پروگراموں کو منعقد کررہی ہے۔ نئی دہلی میں خادم غازی سید افتخار احمد چمّن کے زیر نگرانی یہ احتجاج کیا جائے گا۔ یہ پروگرام 11 بجے دن سے شروع ہوکر شام 5 بجے تک جاری رہنے کی اطلاعات ملی ہے۔ اس احتجاجی پروگرام میں علماء و ذاکرین کے علاوہ دانشوارانِ قوم بھی خطاب کریں گے۔ جن میں مولانا سید شباب نقوی، مولانا محسن تقوی، ڈاکٹر آل طہ (آرگنائزر شیعہ سنی فرنٹ)، مولانا کلب رشد، مولانا عماد نظامی، مولانا فیروز رضا نقوی، مولانا شیخ محمد عسکری، شوکت بھارتی، مولانا اعجاز غدیری، مولانا فیروز ربّانی، مولانا کامران حیدر، مولانا باقر زیدی، شری سوامی اگنیش جی، ڈاکٹر حفیظ الرحمٰن (فاونڈر صوفی فاؤنڈیشن) ، جناب مرزا شکیل، جناب قاسم حیدر، جناب نذیر باقری، جناب تقی ناؤگانوی، ڈاکٹر سردار خان صاحب(صدر شیعہ سنی فرنٹ)، جناب عادل حقانی (فینانس سیکریٹری شیعہ سنی فرنٹ) مخاطب کریں گے۔بتایا جاتا ہے کہ اس احتجاجی پروگرام کو نظم کرنے میں محمد رضا (کواڈینیٹر البقیع آرگنائزیشن، برائے ہند) ، تحفظ عزاداری (امروہہ)، انجمن حیدری (برانچ دہلی)، الحسینی مشن، انجمن عباسیہؑ لوگاؤنا سعادات دہلی اورانجمن پیامِ امام جعفرآباد کا نمایاں رول ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کے نام پر 57 ممالک کی تنظیم او آئی سی کو بھی اس سلسلہ میں بارہا مرتبہ متوجہ کیا گیا ہے۔ لیکن آلِ رسولؐ سے دیرینہ عداوت کے سبب ان کے کسی بھی اجلاس میں انہدام جنت البقیع کا کوئی تذکرہ نہیں کیا گیا۔ اور نہ ہی کی جانے والی نمائندگیوں کو ایجنڈہ میں شامل کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ اسلامی تعاون تنظیم (O.I.C) 21؍اگسٹ 1969ء مسجد اقصیٰ کے واقع کے بعد صرف ایک ماہ چار دن میں یعنی 25؍سپٹمبر 1969 ء کو قائم کی گئی تھی آج 50 سال مکمل ہونے جارہے ہیں اس کے باوجود اسلامی تنظیم بانی ٔ اسلام کی دختر بی بی سیدہ فاطمہ زہراؐ کی مزارِ مبارک کے انہدام پر ہونے والے احتجاج پراور نمائندگیوں پر برف دان کی نظر کرتی آرہی ہے۔ اسی طرح یونائیٹیڈ نیشن کی جانب سے بھی اس مسئلہ پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی۔ یہاں بھی کی جانے والی نمائندگیاں تقریباً رائیگاں ہی ثا بت ہورہی ہیں۔ اس کے برخلاف کوشش اس بات کی جارہی ہے کہ کسی طرح اس مسئلہ کو دبادیا جائے لیکن محبانِ اہلبیتؑ غلامانِ شہزادیٔ کونینؐ آخری سانس تک اس مسئلہ کو زندہ رکھیں گے۔ دنیا جانتی ہے کہ قافلوں کو لوٹنے والے آلِ سعود نے کس طرح حجاز پر ناجائز قبضہ کیا اور اس کا نام تبدیل کرتے ہوئے اپنے قبیلے کے نام سے موسوم کردیا۔ دراصل اس قبیلے کو مبینہ طور پر صہیونی طاقتوں کی مدد شامل تھی۔ اس طرح وہابیت کو فروغ دینے کیلئے آلِ سعود اور برطانوی سامراجیوں نے کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ دولت اور طاقت کے بل بوتے پر وہابیت کو پھیلایا جس میں قبور کی زیارت کو غیر شرعی بتایا گیا ہے۔ وقت گذرتے دیر نہیں یہ اسلامی حکومت میں مغربی تہذیب پھل پھول رہی ہے۔ اسلامی تہذیب کی جگہ مغربی تہذیب اور رفتہ رفتہ غلبہ بڑھتا جارہا ہے۔ موجودہ حالات میں تمام مسلم ممالک سعودی عرب کی بیت کئے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اسلامی حکومت کرنے والے اسلامی ممالک کے سربراہ کی مملکت میں غیر مسلم کے مذہبی اثاثہ جات محفوظ ہیں بلکہ ان کے عقیدہ کے مطابق ان کی عبادت گاہیں یعنی منادر بھی تعمیر کی جارہی ہیں۔ اگر آلِ سعود اور ان کے پاپوش برداروں کو بیر ہے تو اسلامی اثاثہ جات سے ہے۔ رفتہ رفتہ اسلامی ثقافت کو مٹایا جارہا ہے۔ رسولؐ وآل رسولؐ کی تمام نشانیوں کو نیست و نعبود کرنے کا منصوبہ بھی زیر عمل ہے۔ یہ اور بات ہے کہ انھیں پوری طرح سے کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔ لیکن 95 فیصد نشانیاں مٹادی گئی ہیں۔ جو 5 فیصد نشانیاں باقی ہیں انھیں بھی سنگین خطرہ لاحق ہے۔ اس کے علاوہ صہیونی اور استعماری طاقتوں کے ذریعہ دنیا بھر میں شیعوں کا عرصۂ حیات تنگ کرنے کے بھی منصوبہ پر عمل جاری ہے۔ تاکہ شیعہ مسلمانوں کے نسل کشی کی جائے۔ اگرچیکہ متذکرہ سطور انہدام جنت البقیع سے متعلق نہیں ہے لیکن اس کے باوجود اس کا تذکرہ اس لئے بھی ناگزیر سمجھا گیا کہ نئی نسل کو تازہ ترین صورتحال سے واقف کروایا جاسکے۔
مقدس عا شور خانہ نعل مبارک کی 300 ایکڑ اراضی کے تحفظ کی ستائش ۔دیگر 400 ایکڑ اراضی اور بیگم پیٹ میں واقع جائیداد پر خا موشی معنی خیز
حیدرآباد: رامنتا پور میں نقلی ڈاکٹروں کا ٹولہ سر گرم ’ تلنگانہ میڈیکل کونسل کی کار وائی
وقف تر ممی بل 2024 دستور ہند کے آرٹیکل 26 کی خلاف ورزی ہے۔
آبادی میں کمی تشویشناک:آر ایس ایس سر برہ مو ہن بھگوت
حیدرآباد: ما دھا پور کی ایک ہو ٹل کے کمرے میں منشیات پارٹی کا پردہ فاش’