آئی ایس ایس کے روابط کے الزام میں تین افراد بشمول ایک حیدرآبادی ڈاکٹر گرفتار’

گجرات اے ٹی ایس نے آئی ایس آئی ایس سے تعلق رکھنے والا ڈاکٹر ’رائسن‘ زہر تیار کر رہا تھا، دہلی، احمدآباد اور لکھنؤ کی منڈیوں کا سروے بھی کیا

احمدآباد، 10 نومبر:(پی ایم آئی) گجرات اینٹی ٹیررازم اسکواڈ (ATS) نے ایک بڑی کارروائی کرتے ہوئے تین مشتبہ آئی ایس آئی ایس دہشت گردوں کو گرفتار کیا ہے، جن میں ایک حیدرآباد کا ڈاکٹر بھی شامل ہے۔ پولیس کے مطابق یہ گروہ زہریلے کیمیائی مادوں اور ہتھیاروں کے ذریعے بڑے پیمانے پر دہشت گرد حملے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔مرکزی ملزم ڈاکٹر احمد محی الدین سید (35) نے مبینہ طور پر خطرناک زہر رائسن (Ricin) تیار کرنے کے تجربات شروع کر دیے تھے۔

گرفتار شدہ افراد میں دو کا تعلق اترپردیش سے ہے اور ایک کا تعلق حیدرآباد سے بتایا گیا ہے۔ گرفتار شدہ افراد کی شناخت محمد سہیل ، آزاد صیفی اور ڈاکٹر سید احمد معین الدین کے طور پر ہوئی ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ سید احمد معین الدین کا تعلق کھمم سے ہے اور وہ شہر کے علاقہ ٹولی چوکی میں مقیم تھا

تفتیشی حکام کے مطابق اس نے گزشتہ چھ ماہ کے دوران تین بڑے شہروں کے گنجان عوامی مقامات پر سروے کیا، تاکہ حملے کے لیے ہدف کا انتخاب کیا جا سکے۔عوامی منڈیوں اور آر ایس ایس دفتر کا سروےذرائع کے مطابق ڈاکٹر احمد نے دہلی کی آزاد پور منڈی (ایشیا کی سب سے بڑی پھل و سبزی منڈی)، احمدآباد کی ناروڈا فروٹ مارکیٹ اور لکھنؤ میں آر ایس ایس دفتر کا معائنہ کیا تھا۔ان مقامات کو اس نے اس لیے منتخب کیا کہ وہاں روزانہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ آتے ہیں، اور کسی بھی حملے کی صورت میں زیادہ جانی نقصان ہو سکتا تھا۔

حکام نے بتایا کہ ڈاکٹر احمد نے ان جگہوں کے سیکیورٹی انتظامات، رش کے اوقات، داخلی و خارجی راستوں کا تفصیلی جائزہ لیا۔ اس کے موبائل فون اور لیپ ٹاپ سے تصاویر، نقشے اور خاکے بھی برآمد ہوئے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کسی بڑی کارروائی کی منصوبہ بندی میں مصروف تھا۔رائسن زہر کی تیاری اور کیمیائی مواد کی خریداریرائسن ایک انتہائی مہلک قدرتی زہر ہے جو ارنڈی کے بیجوں (Castor Seeds) سے حاصل ہوتا ہے۔ اگر اسے سانس کے ذریعے یا خوراک میں شامل کرکے جسم میں داخل کیا جائے تو چند ملی گرام بھی موت کے لیے کافی ہوتے ہیں۔گجرات اے ٹی ایس کے مطابق ڈاکٹر احمد نے رائسن کی تجرباتی تیاری شروع کر دی تھی۔ایجنسی کے بیان میں کہا گیا:“

ڈاکٹر احمد محی الدین سید ایک بڑے دہشت گرد حملے کی تیاری کے لیے ’رائسن‘ نامی مہلک زہر تیار کر رہا تھا۔ اس مقصد کے لیے اس نے ضروری سائنسی آلات، کیمیکل، اور چار لیٹر ارنڈی کا تیل خرید کر ابتدائی کیمیائی عمل شروع کیا تھا۔”اس کے قبضے سے کیمیائی کتابیں، زہریلے مادوں پر تحقیقی نوٹس، اور ڈارک ویب سے ڈاؤن لوڈ شدہ رہنما کتابچے بھی ملے ہیں جن میں زہر نکالنے اور اسے خوراک یا ایروسول (Spray) کی شکل میں استعمال کرنے کے طریقے درج تھے۔

ہتھیار، زہریلا مواد اور شدت پسند روابطگاندھی نگر کے نزدیک ادالاج کے علاقے میں کی گئی کارروائی کے دوران اے ٹی ایس نے اس کے پاس سے بڑی تعداد میں اسلحہ اور دیگر مواد ضبط کیا، جن میں شامل
ہیں:دو گلاک پستولیںایک بریٹا پستول30 زندہ کارتوسچار لیٹر ارنڈی کا تیللیبارٹری کے آلات اور کیمیائی بوتلیںڈاکٹر احمد نے چین کی ایک میڈیکل یونیورسٹی سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی تھی

۔ تفتیش سے انکشاف ہوا ہے کہ وہ اسلامک اسٹیٹ خراسان پروونس (ISKP) کے ایک رکن ابو خادم سے رابطے میں تھا۔اس کے موبائل سے برآمدہ چیٹس میں فنڈ جمع کرنے، نئے افراد بھرتی کرنے اور دہشت گرد کارروائیاں انجام دینے سے متعلق گفتگو ملی ہے۔اترپردیش سے تعلق رکھنے والے دو ساتھی بھی گرفتارڈاکٹر احمد کے ساتھ دو اور نوجوان — آزاد سلیمان شیخ (20) اور محمد سہیل محمد سلیم (23) — کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔ دونوں کا تعلق اترپردیش سے ہے۔

تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ یہ دونوں آن لائن آئی ایس آئی ایس کی شدت پسند پروپیگنڈا ویڈیوز کے ذریعے انتہا پسند بنے اور انہیں رقومات منتقل کرنے اور مقامی تعاون فراہم کرنے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔وسیع آئی ایس نیٹ ورک کا حصہابتدائی تفتیش میں انکشاف ہوا ہے کہ یہ گروہ ایک بڑے آئی ایس آئی ایس نیٹ ورک کا حصہ ہے جو بھارت کی مختلف ریاستوں میں خفیہ سیلز (Sleeper Cells) کے ذریعے سرگرم ہے۔ایجنسی کے مطابق ان کے روابط تلنگانہ، مہاراشٹر اور کرناٹک تک پھیلے ہوئے ہیں۔

گجرات اے ٹی ایس کے ڈی آئی جی سنیل جوشی نے پی کہا: کے ڈاکٹر احمد محی الدین سید ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ مگر انتہائی شدت پسند شخص ہے۔ اس نے فنڈ اکٹھا کرنے، افراد کی بھرتی کرنے اور زہریلے مادے کے ذریعے بڑے پیمانے پر دہشت گرد حملے کا منصوبہ بنایا تھا۔ اس کی گرفتاری سے ایک بڑی تباہی ٹل گئی ہے۔”تحقیقات جاریتینوں ملزمین کے خلاف غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (UAPA) اور ہندوستانی تعزیراتِ قانون کی متعلقہ دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ان سے گجرات اے ٹی ایس، این آئی اے اور مرکزی خفیہ ایجنسیاں مشترکہ طور پر پوچھ گچھ کر رہی ہیں۔کیمیکل ماہرین ضبط شدہ مواد کی جانچ کر رہے ہیں تاکہ اس بات کی تصدیق کی جا سکے کہ آیا واقعی اس میں رائسن زہر شامل ہے یا نہیں۔

حکام نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ملزمین حملے سے قبل چھوٹے پیمانے پر زہر آزمانے کا منصوبہ بھی بنا رہے تھے۔ایک سینئر افسر نے کہا:“یہ واقعہ اس خطرناک رجحان کی نشاندہی کرتا ہے کہ تعلیم یافتہ افراد بھی انتہا پسندی کا شکار ہو کر اپنی سائنسی معلومات کو دہشت گردی کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔”رائسن: ایک خطرناک زہریلا مادہرائسن ایک بین الاقوامی سطح پر ممنوعہ کیمیائی ہتھیار ہے جسے اقوام متحدہ نے شیڈیول 1 کے زمرے میں رکھا ہے۔یہ زہر انسان کے جسم میں داخل ہو کر 36 سے 72 گھنٹوں کے اندر موت کا سبب بن سکتا ہے
۔1978 میں بلغاریہ کے صحافی جارجی مارکوف کو لندن میں اسی زہر کے ذریعے قتل کیا گیا تھا۔ماہرین کے مطابق اگرچہ ارنڈی کے بیجوں سے رائسن نکالنا آسان ہے، مگر اسے بڑے پیمانے پر حملے کے لیے مؤثر طریقے سے استعمال کرنا مشکل ہے، کیونکہ یہ مادہ ناپائیدار ہوتا ہے اور جلد تلف ہو جاتا ہے۔
سیکیورٹی الرٹ
، مزید کارروائیاں متوقعان گرفتاریوں کے بعد ملک کے مختلف شہروں میں عوامی بازاروں، ٹرانسپورٹ مراکز اور مذہبی اجتماعات میں سیکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔خفیہ ایجنسیاں ایسے تمام شدت پسند نیٹ ورکس پر کڑی نظر رکھ رہی ہیں جو کیمیائی یا حیاتیاتی ہتھیاروں کے ذریعے حملوں کی کوشش کر سکتے ہیں۔گجرات اے ٹی ایس نے اس کارروائی کو حالیہ برسوں کی اہم ترین انسدادِ دہشت گردی آپریشن قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ بروقت اطلاع اور بین الایجنسی تعاون کی بدولت ایک بڑے سانحے کو ٹال دیا گیا۔ (pressmediaofindia.com)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں