Taraweeh prayers concluded at Rashtrapati Bhavan mosque. President Murmu participated.
نئی دہلی /28’مارچ: راشٹر پتی بھون کی مسجد میں ختم تراویح کے موقع پر ملک کی صدر جمہوریہ دروپدی مرمو نے شرکت کی اور روایتی محفل میں امام مسجد کو اس مبارک موقع پر تحائف سے نوازا ۔ختم تراویح کے موقع پر راشٹر پتی بھون کی مسجد میں صدر جمہوریہ کی شرکت ایک روایت رہی ہے ،جس پر ہر دور میں ہر صدر جمہوریہ نے عمل کیا ہے ۔صدر جمہوریہ مرمو نے ختم قرآن کے دوران کرسی پر بیٹھ کر روایت کو نبھایا ۔
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے والے ہندوستان میں کثر المذاہب ثقافت کا ایک اور نمونہ ہے راشٹر پتی بھون کی مسجد ۔جس کو ہم راشٹر پتی بھون کا روحانی پہلو بھی کہہ سکتے ہیں ۔ عام دنو ں کی نماز کے ساتھ رمضان المبارک میں نماز تراویح سے نماز عید تک کا اہتمام ہوتا ہے،اس کے ساتھ یہ ایک ایسی مسجد ہے جس میں ملک کی آزادی کے بعد ہر صدر جمہوریہ نے حاضری دی ہے ، نمازیوں کو مبارک باد دیتے ہیں۔ایک ایسی مسجد جس میں ملک کے مسلم صدور سے لے کر چپراسی تک ایک ساتھ نماز ادا کرتے رہے ہیں۔
رششٹرپتی بھون کی مسجد میں ختم تراویح
آپ کو بتا دیں کہ راشٹر پتی بھون کی مسجد میں صدارتی قیام گاہ کے مسلم ملازمین نماز ادا کرتے ہیں، دہائیوں سے یہ روایت چلی آ رہی ہے کہ صدرِ ہند رمضان المبارک میں ختم شریف کے موقع پر اس مسجد کا دورہ کرتے ہیں۔ یہ تقریب قرآن پاک مکمل ہونے پر منعقد کی جاتی ہے۔
کس نے شروع کی تھی روایت
مسجد میں ختم تراویح پر صدر جمہوریہ کی آمد یا شرکت کی روایت کا آغاز ہندوستان کے پہلے صدر ڈاکٹر راجندر پرساد نے کیا تھا ،ان کے بعد ذاکر حسین، فخرالدین علی احمد اور اے پی جے عبدالکلام نے بھی اس روایت کو جاری رکھا، آج بھی ملک کے پریسڈینٹ پورے احترام کے ساتھ مسجد تشریف لاتے ہیں، امام صاحب کو پگڑی اور تحائف پیش کرتے ہیں اور دعا میں شریک ہوتے ہیں۔
اس روایت کے ایک چشم دیدسابق فٹبال کوچ آنندی بروآ بھی ہیں،جو برسوں راشٹرپتی بھون کے اسٹاف کوارٹر میں مقیم رہے ،ان کا کہنا تھا کہ جب ہم راشٹر پتی بھون کے اسٹاف کوارٹرز میں رہتے تھے تو ہر سال دیکھا کرتے تھے کہ صدر جمہوریہ ختم تراویح کے موقع پر مسجد آتے تھے۔ میں نے گیانی ذیل سنگھ سے لے کر رام ناتھ کووند تک تمام صدور کو اس تقریب میں شرکت کرتے دیکھا ہے۔یہ راشٹرپتی بھون کے لیے ایک بڑا موقع ہوتا ہے، جس میں عملہ اور ان کے اہل خانہ جوش و خروش سے حصہ لیتے ہیں
راشٹرپتی بھون میں مسجد کب بنی؟
دلچسپ بات یہ ہے کہ جب راشٹرپتی بھون جو کہ پہلے وائسرائے ہاؤس تھا ،دراصل 1931 میں تعمیر ہوا تھا،اس وقت اس میں کسی مسجد کی گنجائش نہیں رکھی گئی تھی، برطانوی ماہرِ تعمیرات ایڈون لٹینز نے اس عظیم الشان عمارت کو ڈیزائن کرتے وقت کسی مذہبی مقام کے لیے جگہ مخصوص نہیں کی تھی، ممکنہ طور پر اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس کے آس پاس پہلے ہی گرجا گھر اور گوردوارہ موجود تھے،لیکن پھر جب یہ 1950 کے بعد جب راشٹرپتی بھون میں مقیم مسلم اسٹاف کی روحانی ضروریات کو مدِنظر رکھتے ہوئے یہاں مسجد تعمیر کی گئی۔ یہ مسجد راشٹر پتی بھون کے مدر ٹریسا کریسنٹ گیٹ (گیٹ نمبر 31) سے داخل ہونے پر دیکھی جا سکتی ہے۔
مسجد کے پہلے امام
آپ کو بتا دیں کہ اس مسجد کے پہلے امام حافظ حسین الدین تھے ،جو میرٹھ کے ایک معروف اسلامی اسکالر تھے۔ وہ 2005 تک اس مسجد کے امام رہے۔ حافظ حسین الدین کو سابق وزیرِاعظم اندرا گاندھی کی رہائش گاہ (1، صفدر جنگ روڈ) پر بھی مدعو کیا جاتا تھا، جہاں وہ مذہبی تقریبات میں شرکت کرتے تھے۔یہ مسجد عام عوام کے لیے نہیں کھولی جاتی، جبکہ جو لوگ یہاں عبادت کر چکے ہیں، ان کے لیے یہ ایک یادگار تجربہ رہا ہے
عید کا خاص ماحول
آپ کو جان کر حیرت ہوگی کہ عید کے دن راشٹرپتی بھون میں ایک خاص جوش و خروش ہوتا ہے۔مسجد میں اجتماعی دعائیں ہوتی ہیں۔ صدر کے دفتر کی جانب سے تمام اسٹاف کو میٹھائیاں تقسیم کی جاتی ہیں،
بات یاوں کی
راشٹر پتی بھون اسٹاف کوارٹرز کے ایک پرانے ممبر نے ماضی کی یادوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ سابق صدر ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام جمعہ کی نماز کے لیے باقاعدگی سے مسجد آتے تھے۔نماز کے بعد وہ وہاں بیٹھ کر نمازیوں سے گفتگو کرتے تھے ۔ خاص طور پر نوجوانوں سے زیادہ بات کرتے تھے اور ان کی تعلیم اور کیریئر کے بارے میں پوچھتے۔
آپ کو بتا دیں کہ ڈاکٹر راجندر پرساد نے وہاں تمام مذاہب کے تہوار منانے کی روایت کو فروغ دیا تھا ۔ راشٹرپتی بھون میں ایک مندر بھی موجود ہے،جس میں دیوالی، ہولی، جنم اشٹمی جیسے تہوار جوش و خروش سے منائے جاتے ہیں، چونکہ گردوارہ اور چرچ پہلے
ہی قریب موجود تھے، اس لیے سکھوں اور عیسائیوں کے لیے اضافی عبادت گاہ بنانے کی ضرورت نہیں سمجھی گئی۔
بشکریہ ۔اے ٹی وی