گورنروں کو اسمبلی سے منظور شدہ بلوں پر تین ماہ کے اندر فیصلہ کرنے کی ہدایت سپریم کورٹ کا ایک تاریخی قدم، یہ وفاقیت کے حق میں ہے’ کپل سبل

نئی دہلی’12اپریل: ریاستی گورنروں کے لیے ریاستی اسمبلیوں کے ذریعہ منظور شدہ بلوں پر عمل کرنے کا ایک ٹائم لائن مقرر کرنے پر سپریم کورٹ کی تعریف کرتے ہوئے اسے ایک ’’تاریخی فیصلہ‘‘ قرار دیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ یہ ’’وفاق کے لیے اچھا‘‘ ہے، کیوں اس سے گورنر کے کردار کی وضاحت بھی ہو جاتی ہے۔ واضح رہے کہ ڈی ایم کے کی تمل ناڈو حکومت کو ایک بڑی فتح میں سپریم کورٹ نے گزشتہ منگل کو ریاستی اسمبلی سے منظور شدہ ان 10 بلوں کو منظوری دے دی جو صدر کے غور کے لیے گورنر آر این روی کے ذریعہ روکے گئے تھے۔

فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے ریاستی اسمبلیوں سے منظور شدہ بلوں پر عمل کرنے کے لیے گورنروں کے لیے ایک ٹائم لائن بھی مقرر کی۔ ایک پریس کانفرنس میں عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے کی ستائش کرتے ہوئے سبل نے کہا کہ یہ فیصلہ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ وفاقی ڈھانچہ آئینی اصولوں کے تحت آگے بڑھے گا۔ سبل نے کہا کہ یہ حکم گورنر کے کردار کی بھی وضاحت کرتا ہے۔

کپل سبل نے لگائے بی جے پی کی مرکزی حکومت پر من مانی کے الزامات

انھوں نے کہا ’’سپریم کورٹ نے حال ہی میں ایک تاریخی فیصلہ سنایا ہے۔ یہ زیر بحث بھی ہے کیوں کہ جب سے (مرکز میں) بی جے پی کی حکومت آئی ہے، گورنروں نے من مانی سے کام کرنا شروع کر دیا ہے۔ جب بھی کوئی بل منظور ہوتا ہے اور گورنر کے دستخط کی ضرورت ہوتی ہے، گورنر بل کو اپنے پاس رکھتے ہیں اور اس میں تاخیر کرتے ہیں۔ وہ دستخط نہیں کرتے ہیں، تو نوٹیفکیشن جاری نہیں ہو پاتا اور عوام تکلیف اٹھاتی ہے۔‘‘

انھوں نے مزید کہا کہ یہ ان ریاستوں میں ہوتا ہے جہاں بی جے پی کی علاوہ کسی اور پارٹی کی حکومت ہے۔ لہٰذا یہ مکمل طور پر ایک سیاسی عمل تھا۔ انھوں نے کہا ’’میں کہتا رہا ہوں کہ یہ وفاقی ڈھانچے کے خلاف ہے۔ مرکز کے رہنماؤں نے عدم استحکام لانے کی کوشش کی – یہ مغربی بنگال، کیرالہ، تمل ناڈو اور بہت سی دوسری جگہوں پر دیکھا گیا۔ صرف گورنر ہی نہیں، اسپیکر بھی اسمبلی میں من مانی سے کام کرتے ہیں۔ اب سپریم کورٹ نے اس عمل کے خلاف حکم دیا ہے۔‘‘

انھوں نے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ’’اب سپریم کورٹ نے بل کو واپس بھیجنے کے لیے تین ماہ کی مدت کا فیصلہ کیا ہے۔ جب بل دوبارہ منظور ہو جائے گا تو گورنر کو ایک ماہ کے اندر اس پر دستخط کرنے ہوں گے۔ اٹارنی جنرل نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ گورنرز کے لیے ٹائم فریم لازمی نہیں کیا جا سکتا، لیکن سپریم کورٹ نے اس کی تردید کر دی… گورنر کے پاس بل صدر کو بھیجنے کا اختیار ہوگا، لیکن صدر کو بھی ٹائم فریم پر عمل کرنا ہوگا۔ یہ وفاقیت کے لیے اچھا ہے۔‘‘

کیا ہے سپریم کورٹ کا فیصلہ؟

واضح رہے کہ اپنی نوعیت کی پہلی ہدایت میں سپریم کورٹ نے منگل کو ایک ٹائم لائن طے کی جس کے اندر گورنر کو ریاستی مقننہ کے ذریعہ منظور کردہ بلوں پر عمل کرنا ہوگا۔ عدالت عظمیٰ نے کہا کہ آئین کی دفعہ 200 کے تحت گورنر کے فرائض کی انجام دہی کے لیے کوئی واضح وقت مقرر نہیں ہے۔ تاہم ’’کوئی مقررہ وقت کی حد نہ ہونے کے باوجود دفعہ 200 کو اس طرح نہیں دیکھا جا سکتا کہ گورنر کو اس سے اسمبلی سے منظور شدہ بلوں پر عمل نہ کرنے کی اجازت مل جائے اور ریاست میں قانون سازی کی مشینری کو روکے رکھے۔‘‘

سپریم کورٹ نے اس حوالے سے ایک ٹائم لائن طے کرتے ہوئے کہا کہ کسی بل کی منظوری روکنے اور اسے وزراء کی کونسل کی مدد اور مشورے سے صدر کے لیے محفوظ رکھنے کی صورت میں، اس پر عمل کے لیے زیادہ سے زیادہ مدت ایک ماہ ہوگی۔ اگر گورنر کونسل آف وزراء کی مدد اور مشورے کے بغیر منظوری کو روکنے کا فیصلہ کرتا ہے، تو بلوں کو تین ماہ کے اندر اسمبلی میں واپس کر دینا چاہیے۔ سپریم کورٹ نے مزید کہا کہ اگر ریاستی اسمبلی دوبارہ غور کرنے کے بعد بل پیش کرتی ہے تو ایک ماہ کے اندر گورنر کو اسے منظوری دینی ہوگی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں