مولانا محمودمدنی : مسجد-مندرتلاش کرنے والے اس ملک کی یک جہتی اوراتحاد کے دشمن ہیں
جمعیۃ علماء ہند کی لڑائی جاری رکھنے کا اعلان
نئی دہلی 12 ڈسمبر:نئی دہلی: پلیسیز آف ورشپ ایکٹ 1991 سے متعلق جمعیۃ علماء ہند کے صدرمولانا محمود اسعد مدنی ودیگر کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے آج سپریم کورٹ نے ملک کے سبھی عدالتوں کو ہدایت جاری کی ہے کہ جب تک کہ سپریم کورٹ کا اگلا حکم نہ آجائے، ملک میں کسی بھی عبادت گاہ (مسجد، مندراوردرگاہ) کے خلاف کوئی نیا مقدمہ درج نہیں کیا جائے گا۔ اس پرمولانا محمود مدنی نے کہا کہ ہمارا مقصد اس ملک میں امن وامان کا تحفظ کرنا ہے، ہمیں ماضی میں جھانکنے سے زیادہ اس ملک کے مستقبل کی تعمیراوراس تعمیرمیں سبھی طبقوں کی یکساں نمائندگی پرتوجہ مرکوزکرنا چاہئے۔
مولانا محمود اسعد مدنی نے کہا کہ مسجد-مندرتلاش کرنے والے اس ملک کی یک جہتی اوراتحاد کے دشمن ہیں۔ جمعیۃ علماء ہند نے ہمیشہ فرقہ پرستی کی مخالفت کی ہے اوراس نے ان دروازوں کوبند کرنے کے لئے بھی ارباب اقتدار کو بارہا متوجہ کیا ہے، جن راستوں پر فرقہ پرستی کا ناگ پھن مارے کھڑا ہے۔ یہ جمعیۃعلماء ہند کی ہی کوشش تھی کہ 1991 میں ایکٹ بنا اورانشاء اللہ ہماری کوشش سے یہ ایکٹ نافذ العمل بھی ہوگا۔
سپریم کورٹ نے عبادت گاہوں سے متعلق سپریم کورٹ کا حکم
قابل ذکرہے کہ سپریم کورٹ نے سماعت کرتے ہوئے کہا کہ زیرالتوا مقدمات (جیسے گیان واپی مسجد، متھرا شاہی عیدگاہ، سنبھل جامع مسجد وغیرہ) میں کوئی بھی عدالت سروے کا حکم جاری نہیں کرے گی اورنہ ہی ایسا عبوری فیصلہ سنائے گی، جس سے عبادت گاہ کی نوعیت متاثرہو۔ سپریم کورٹ کی ہدایت سے ان لوگوں کو شدید جھٹکا لگا ہے، جو ہرمسجد کے پیچھے مندرتلاش رہے تھے۔ چیف جسٹس آف انڈیا سنجیوکھنہ، جسٹس سنجے کماراورجسٹس کے وی وشوناتھن پرمشتمل ایک خصوصی بنچ نے یہ حکم عبادت گاہوں کے تحفظ سے متعلق پلیسزآف ورشپ (خصوصی دفعات) ایکٹ 1991 کو چیلنج کرنے والی متعدد عرضیوں کی سماعت کے دوران دیا۔ جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے عدالت میں ایڈوکیٹ دشینت دوے اورایڈوکیٹ آن ریکارڈ منصورعلی خاں اورایڈوکیٹ نیاز احمد فاروقی موجود تھے۔ جمعیۃ کے وکیل دشینت داوے نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ سبھی جاری مقدمات کو کالعدم کیا جائے، بنچ کو مطلع کیا گیا کہ اس وقت ملک میں 10 مساجد/درگاہوں کے خلاف 18 مقدمات زیر التوا ہیں،تاہم، عدالت نے پہلے سے زیرالتوا مقدمات کی سماعت کومعطل کرنے سے
انکارکردیا۔ عدالت نے مرکز (یونین حکومت) کو ہدایت دی کہ وہ عبادت گاہوں کے تحفظ سے متعلق ایکٹ پردائرعرضیوں کے خلاف چار ہفتے کے اندراپنا جواب داخل کرے۔ عدالت نے یہ بھی حکم دیا کہ مرکز کے جوابی حلف نامے (counter affidavit) کی کاپی کسی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کی جائے تاکہ کوئی بھی شخص اسے ڈاؤن لوڈ کر سکے۔
یہ سماعت 1991 کے پلیسزآف ورشپ ایکٹ کی آئینی حیثیت کوچیلنج کرنے والی کئی عرضیوں کے تناظرمیں ہوئی۔ اس قانون کا مقصد 15 اگست 1947 کوعبادت گاہوں کی جوحیثیت تھی، اس کوبرقراررکھنا اوراس میں تبدیلی سے روکنا ہے۔ اس معاملے کی اصلی درخواست اشونی کماراپادھیائے بنام یونین آف انڈیا کے عنوان سے 2020 میں دائرکی گئی تھی، جس میں سپریم کورٹ نے مارچ 2021 میں مرکز کو نوٹس جاری کیا تھا۔ بعد میں اس قانون کوچیلنج کرنے والی دیگردرخواستیں بھی دائرکی گئیں۔ آج کی سماعت میں جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے بھی ایک رٹ پٹیشن درج کی گئی، جس میں 1991 کے ایکٹ کے مکمل نفاذ کا مطالبہ کیا گیا تھا۔اس کے علاوہ کئی سیاسی جماعتوں نے اس قانون کے تحفظ کے لئے مداخلتی درخواستیں دائرکی ہیں، جن میں سی پی آئی (ایم)، انڈین یونین مسلم لیگ، ڈی ایم کے، آرجے ڈی ایم پی منوج جھا اوراین سی پی (شرد پوار) کے ایم پی جتیندراوہاڈ شامل ہیں۔ قابل ذکربات یہ ہے کہ یونین حکومت نے عدالت کی جانب سے دی گئی کئی توسیعات کے باوجود اب تک اپنا جواب داخل نہیں کیا ہے۔ یہ قانون اس وقت عوامی بحث کا موضوع بن گیا، جب اترپردیش کی سنبھل جامع مسجد کے سروے کے بعد پولس تشدد کے واقعات پیش آئے۔ اس کے بعد اس معاملے پرعوامی حلقوں میں شدید بحث ومباحثہ ہوا اورعدالت نے اس معاملے میں سخت ہدایات جاری کیں۔