ترکی ميں طلبا اور اساتذہ کی ایک احتجاجی تحريک کے دوران چند افراد نے ايسی تصاوير شيئر کيں، جن ميں مسلمانوں کے لیے مقدس ترین مقام خانہ کعبہ کی تصویر کے ساتھ ہم جنس پرستوں کا جھنڈا دیکھا جا سکتا تھا۔
اس پيش رفت پر انقرہ حکومت نے شديد رد عمل ظاہر کيا۔ ترکی کے شہر استنبول کی ايک بڑی يونيورسٹی ميں ايک متنازعہ تقرری کے خلاف جاری طلبا کے احتجاجی مظاہروں ميں چند ايسی تصاوير بھی ديکھی گئيں، جن ميں مسلمانوں کے مقدس ترين مذہبی مقام خانہ کعبہ کی تصویر کے ساتھ ہم جنس پرستوں کا روایتی جھنڈا دکھایا گیا تھا۔
يہ مسلمانوں کے ليے انتہائی حساس معاملہ ہے۔ يہی وجہ ہے کہ حکومتی حلقوں کی جانب سے اس پر شديد رد عمل ظاہر کيا گيا۔ احتجاج کا يہ سلسلہ اب ملک کے کئی شہروں تک پھيل چکا ہے اور سياسی مبصرين اسے سن 2013ء کے بعد ترکی ميں صدر رجب طيب ايردوآن کے خلاف سب سے بڑی احتجاجی تحريک قرار دے رہے ہيں۔
معاملہ ہے کيا اور شروع کيسے ہوا؟
قريب ايک ماہ قبل صدر ايردوآن نے مليح بُولُو کو استنبول کی بوازک يونيورسٹی کا ريکٹر مقرر کيا۔ بُولُو حکمران جماعت کے بہت قريب سمجھے جاتے ہيں۔ اساتذہ اور طلبا نے تقرری کو شعبہ ادب و تعليم ميں آزادی اور جمہوری اقدار کے خلاف قرار ديتے ہوئے اس کے خلاف آواز اٹھائی۔ بُولُو سے ان کے استعفے کا مطالبہ کيا گيا، جسے انہوں نے مسترد کر ديا۔
ترکی میں دانشوروں کی گرفتاریاں
ایردوآن کے خلاف ’غلط زبان‘، ترکی کا ایران سے احتجاج
گزشتہ ہفتوں کے دوران يہ احتجاج زور پکڑتا گیا اور مظاہرين کے خلاف پوليس کے سخت کريک ڈاؤن کے مناظر سامنے آنے لگے۔ اب فروری کے اوائل ميں يہ احتجاج ايک باقاعدہ تحريک کی شکل اختيار کر گيا ہے اور ملک گير سطح پر چھ سو سے زائد افراد کو گرفتار کيا جا چکا ہے۔ بيشتر مظاہرين کو بعد ازاں رہا بھی کر ديا گيا۔ کئی مقامات پر پوليس کی کارروائی ميں آنسو گيس کا استعمال اور لاٹھی چارج بھی ديکھا گيا۔
بین الاقوامی رد عمل کيسا تھا؟
امريکا، يورپی يونين اور اقوام متحدہ نے ترکی ميں مظاہرين کے خلاف طاقت کے استعمال کی شديد مذمت کی۔ يورپی يونين کی خارجہ پاليسی کے سربراہ جوزیپ بوريل نے چار فروری کو اس بارے ميں ایک تفصيلی بيان جاری کيا، جس ميں ترکی کے حالات اور وہاں جاری واقعات پر گہری تشويش کا اظہار کیا گیا۔ جواباﹰ ترک وزارت خارجہ نے آج جمعہ پانچ فروری کو جاری کردہ اپنے ایک بيان ميں اس بین الاقوامی رد عمل کی مذمت کی اور مطالبہ کیا کہ ترکی کے اندرونی معاملات ميں دخل اندازی نہ کی جائے۔
ترک وزارت داخلہ نے اسی ہفتے بتايا کہ اس احتجاج ميں شريک بائيس مظاہرين کے دہشت گرد تنظيموں کے ساتھ روابط ہيں۔ صدر ايردوآن نے بھی تمام مظاہرين کو دہشت گردوں سے تعبير کرتے ہوئے کہا کہ ان طلبا کے خلاف سخت ايکشن ليا جائے گا، جو قومی اور معاشرتی اقتدار کی خلاف ورزی کرتے پائے گئے۔
رکی میں غصہ، احتجاج اور غم
اس حادثے پر ترک حکومت نے سہہ روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔ دوسری جانب ہلاک ہونے والوں کی تدفین کا سلسلہ جاری ہے۔ اس موقع پر انتہائی جذباتی اور رقت آمیز مناظر دیکھنے کو ملے۔
احتجاج ميں ہم جنسی پرستوں کا کردار؟
استنبول کی سب سے معتبر يونيورسٹی ميں شروع ہونے والا احتجاج اس وقت شدت اختيار کر گيا، جب چند طلبا نے نئے ريکٹر مليح بُولُو کے دفتر کے باہر ايسے پوسٹر لگا دیے، جن ميں مسلمانوں کے مقدس ترین مذہبی مقام خانہ کعبہ کو ایسے دکھایا گیا تھا کہ اس کی ایک تصویر پر ايل جی بی ٹی يا ہم جنس پرست کميونٹی کا جھنڈا لہرا رہا تھا۔ اس موضوع پر کئی تصاوير سوشل ميڈيا پر بھی کافی زیادہ شيئر کی گئيں۔
ہم جنس پرستی کا ترک طلبا اور اساتذہ کی اس احتجاجی تحريک سے براہ راست کوئی تعلق نہيں مگر چند افراد کے اس بہت متنازعہ عمل نے اس معاملے کو ایک تعلیمی تنازعے کے عین مرکز ميں دھکیل دیا۔ بدھ کے روز صدر ایردوآن نے بھی اس بارے میں ایک سخت بيان ديا۔ انہوں نے کہا، ”ايل جی بی ٹی جيسی کوئی شے ہے ہی نہيں۔ يہ ملک اور معاشرہ اخلاقيات پر مبنی ہیں اور مستقبل ميں بھی ايسا ہی ہو گا۔‘‘
قبل ازيں ترک وزير داخلہ سليمان سوئلو نے بھی ايک ٹويٹ مں کہا تھا کہ ‘چار ايل جی بی ٹی کارکنوں‘ کو پکڑ ليا گيا ہے اور يونيورسٹی ميں ان کا کلب بند کرا ديا گيا ہے۔ يورپی اور امريکی حکام نے اس واقعے کے تناظر ميں ترکی ميں ہم جنس پرستوں کے خلاف استعمال کی گئی زبان کو ‘نفرت آميز‘ قرار ديتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔