جسٹس سوریہ کانت پیر کو بھارت کے 53ویں چیف جسٹس کا حلف اٹھائیں گے

نئی دہلی، 23 نومبر (پی ٹی آئی): جسٹس سوریہ کانت، جنہوں نے آرٹیکل 370 کی منسوخی، بہار کے انتخابی فہرستوں کی نظرثانی اور پیگاسس اسپائی ویئر کیس سمیت متعدد اہم آئینی فیصلوں میں کلیدی کردار ادا کیا ہے، پیر کے روز بھارت کے 53ویں چیف جسٹس کے طور پر حلف اٹھائیں گے۔ وہ جسٹس بی آر گوائی کی جگہ لیں گے، جو آج شام عہدہ چھوڑ رہے ہیں۔

جسٹس کانت کو 30 اکتوبر کو اگلا چیف جسٹس مقرر کیا گیا تھا اور وہ تقریباً 15 ماہ تک اس منصب پر فائز رہیں گے۔ وہ 9 فروری 2027 کو 65 برس کی عمر مکمل کرنے پر سبکدوش ہوں گے۔

1962 میں ہرِیانہ کے ضلع حصار میں ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہونے والے جسٹس سوریہ کانت نے ایک چھوٹے شہر کے وکیل کے طور پر اپنے کیریئر کا آغاز کیا اور ملک کے اعلیٰ ترین عدالتی منصب تک پہنچے۔ انہوں نے 2011 میں کرکشیتر یونیورسٹی سے قانون میں ماسٹرز کی ڈگری فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن کے ساتھ حاصل کی۔

پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ میں متعدد اہم فیصلے تحریر کرنے کے بعد وہ 5 اکتوبر 2018 کو ہماچل پردیش ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مقرر ہوئے۔ سپریم کورٹ میں اپنے دور میں انہوں نے آرٹیکل 370، اظہارِ رائے کی آزادی اور شہریت سے متعلق کئی اہم آئینی امور پر فیصلے دیے۔

وہ اس آئینی بنچ کا حصہ بھی رہے جس نے نوآبادیاتی دور کے بغاوت کے قانون (سڈیشن لا) پر حکم امتناع جاری کرتے ہوئے ہدایت دی کہ حکومت کی نظرثانی تک اس قانون کے تحت کوئی نیا مقدمہ درج نہ کیا جائے۔ بہار میں الیکشن کمیشن کی خصوصی نظرثانی کے دوران انہوں نے 65 لاکھ ووٹروں کے اخراج کی تفصیلات پیش کرنے کا حکم بھی دیا۔

جسٹس کانت نے مقامی جمہوریت اور صنفی مساوات کو فروغ دیتے ہوئے ایک خاتون سرپنچ کو غیرقانونی طور پر عہدے سے ہٹائے جانے پر بحال کرنے کا حکم دیا اور اپنے فیصلے میں صنفی جانبداری کو بے نقاب کیا۔ انہوں نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن سمیت ملک کی تمام بار ایسوسی ایشنز میں خواتین کے لیے ایک تہائی نشستیں محفوظ کرنے کا بھی حکم دیا۔

وہ اس بنچ میں شامل تھے جس نے سابق جج جسٹس اندو ملہوترا کی سربراہی میں پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دی تاکہ 2022 میں وزیر اعظم نریندر مودی کے پنجاب دورے کے دوران پیش آئے سیکیورٹی نقص کا جائزہ لیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے معاملات کے لیے “عدالتی تربیت یافتہ ذہن” ضروری ہوتا ہے۔

جسٹس کانت نے دفاعی فورسز کے ون رینک ون پنشن (OROP) اسکیم کو آئینی قرار دیتے ہوئے برقرار رکھا اور خواتین فوجی افسران کی مستقل کمیشن کے مطالبات سے متعلق درخواستوں کی سماعت جاری رکھی۔

وہ اس سات رکنی بنچ میں بھی شامل رہے جس نے 1967 کے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (AMU) فیصلے کو کالعدم قرار دیا، جس کے نتیجے میں یونیورسٹی کی اقلیتی حیثیت کے دوبارہ جائزے کا راستہ ہموار ہوا۔ پیگاسس جاسوسی کیس میں بھی انہوں نے اہم کردار ادا کیا اور ایک ماہرین پر مشتمل کمیٹی تشکیل دینے کے فیصلے میں حصہ لیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ ریاست قومی سلامتی کے نام پر “غیر محدود چھوٹ” نہیں لے سکتی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں