دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم بھی ضروری
نئی دہلی: عصری تعلیم کو وقت کی اہم ترین ضرورت قرار دیتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ جمعیۃ علماء ہند عصری تعلیم کی ہرگز ہرگز مخالف نہیں ہے، قوم کو جہاں علماء فضلاء کی ضرورت ہے وہیں اسے ڈاکٹروں، انجینئروں اور سائنس دانوں کی بھی ضرورت ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ دینی تعلیم کو لازمی تصور کرتی ہے۔ یہ بات انہوں نے آج یہاں جمعیۃ علماء دہلی و ہریانہ صوبوں کے ضلعی صدور، نظما اور ارکان مرکزیہ کے ایک روزہ تربیتی پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔انہوں نے کہا کہ ہمارا موقف، ہماری سیاست، ہماری کارکردگی پوری طرح ہمارے اکابرین کی مرہون منت ہے اور اسی کو ہم اپنے لئے مشعل راہ سمجھتے ہیں، ان کے طریقہ کار سے ہٹ کر کوئی نیا طریقہ کار اختیار کرنا ہم جماعت کے لئے مفید نہیں سمجھتے۔ انہوں نے زور دیکر کہا کہ ہمارے اکابر بھی علوم عصریہ کے مخالف نہیں تھے، حالانکہ یہ سب کے سب عالم اور علوم نبوت کے ماہر تھے، ملک کی آزادی کے لئے انہوں نے انگریزوں کے خلاف طویل جدوجہد کی اور جان و مال کی قربانی بھی دی، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ انگریزی تعلیم کے خلاف نہیں تھے، چنانچہ جب ملک آزاد ہوا تو جمعیۃ علماء ہند کی قیادت نے مدارس اور اسکولوں کے قیام کے لئے باضابطہ طور پر ایک ملک گیر تحریک چلائی کیونکہ وہ اس بات کو سمجھتے تھے کہ قوم کا تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا بھی موقف یہی ہے کہ علوم عصریہ بھی ہمارے لئے ضروری ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم وہ اس لئے ضروری سمجھتے ہیں کہ اگر ہمارا بچہ ڈاکٹر انجینئر بن گیا ہے تو اسے اتنی دینی تعلیم تو ہونی ہی چاہئے کہ وہ آخری وقت میں کلمہ پڑھ سکے۔ انہوں نے اس بات پر سخت افسوس کا اظہار کیا کہ عصری تعلیم کے تعلق سے جنوبی ہندوستان کے مسلمانوں میں جو شعور ہے وہ شمالی ہندوستان کے مسلمانوں میں نہیں ہے، ہم شادی بیاہ اور دوسری خرافات والی چیزوں پر تو لاکھوں روپے خرچ کر دیتے ہیں لیکن اسکول و کالج کھولنے کے بارے میں نہیں سوچتے، ایسا نہیں ہے کہ جنوب کے مقابلہ شمالی مسلمانوں کے پاس سرمایہ کی کمی ہے، درحقیقت ان کے اندر شعور نہیں ہے جس کو پیدا کرنے کی اب اشد ضرورت ہے۔
مولانا مدنی نے کہا کہ حالیہ دنوں میں مسلم لڑکیوں سے ہندو لڑکوں کی شادیوں کے افسوسناک واقعات سامنے آئے ہیں یہ بلا سبب نہیں ہے بلکہ فرقہ پرستوں کا ایک ٹولہ منظم طور پر اس کی پشت پناہی کر رہا ہے کہ مسلم بچیوں کو مرتدد بنایا جائے، انہوں نے آگے کہا کہ اس کو لیکر فرقہ پرستوں نے جو پروپیگنڈہ کیا اس کے دباؤ میں لوجہاد کی خود ساختہ اصطلاح کے خلاف بی جے پی حکمرانی والی ریاستوں میں قانون بھی بنا دیا گیا، لیکن اس کے نفاذ میں بدترین امتیاز برتا گیا، اگر کسی مسلم لڑکے نے اس طرح کی بدبختی کی تو اس کے پورے خاندان کو اٹھا کر جیل بھیج دیا گیا لیکن جب اس طرح کی حرکت کسی ہندو لڑکے نے کی تو کوئی کارروائی نہیں ہوئی بلکہ انتظامیہ کے لوگوں نے اس کی پشت پناہی کی۔
مولانا مدنی نے کہا کہ اس کا توڑ یہ ہے کہ مسلمان لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے الگ الگ تعلیمی ادارے کھولیں، جہاں محفوظ دینی ماحول میں قوم کے بچے اور بچیاں تعلیم حاصل کر سکیں، انہوں نے کہا کہ اگر ابھی کچھ نہ کیا گیا تو دس سال بعد یہ صورتحال دھماکہ خیز بھی ہوسکتی ہے، اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ آپ اس امید پر ہرگز نہ رہیں کہ سرکاریں آپ کے لئے کچھ کریں گی، کیونکہ 1947سے ہی تمام سیاسی پارٹیوں میں گھسے ہوئے فرقہ پرست لوگوں کی متفقہ پالیسی یہ ہے کہ مسلمانوں کو اپنے پیروں پر کھڑا نہ ہونے دیں، یہ ہی وجہ ہے کہ آزادی کے75سال بعد بھی مسلمان ملک کی سب سے پسماندہ قوم ہیں، یہاں تک کہ وہ ہر شعبہ میں دلتوں سے بھی پیچھے ہیں انہوں نے کہا کہ آزادی کے بعد ارباب اقتدار کی ایک طے شدہ پالیسی کے تحت مسلمانوں کو تعلیمی اور معاشی میدان سے باہر کر دیا سچر کمیٹی کی رپورٹ اس کی شہادت دیتی ہے اس لئے اب وقت آگیا ہے کہ مسلمان پیٹ پر پتھر باندھ کر اپنے بچوں کو تعلیم دلوائیں۔ انہوں نے قوم کے بااثر افراد سے یہ اپیل کی کہ وہ زیادہ سے زیادہ لڑکے اور لڑکیوں کے لئے الگ الگ ایسے اسکول و کالج بنائیں جہاں وہ دینی ماحول میں آسانی سے تعلیم حاصل کر سکیں۔
آج مسلمانوں میں پڑھے لکھے لوگوں کی کمی نہیں ہیں، ان میں تعلیم حاصل کرنے کا رجحان بڑھا ہے ناموافق حالات میں بھی قوم نے زندہ رہنے اور آگے بڑھنے کا حوصلہ نہیں چھوڑا لیکن آج بھی شمالی ہندوستان میں اچھے اور معیاری تعلیمی اداروں کی کمی ہے اس لئے میں کہتا ہوں کہ عصری تعلیم کے لئے عصری اسکول و کالج بھی ضروری ہیں، آپ کے پاس وسائل نہیں ہیں کوئی بات نہیں کسی جھوپڑی میں بچیوں کے لئے اسکول کھول دیں آپ اگر ایسا کریں گے تویہ ثابت کر دیں گے کہ آپ کے اندر قومی شعور ہے اور آپ ایک زندہ قوم ہیں، ایسا نہیں کریں گے تو مردہ ہو جائیں گے۔ مولانا مدنی نے صاف لفظوں میں کہا کہ مسلم فرقہ پرستی ہویا ہندو فرقہ پرستی جمعیۃ علماء ہند ہر طرح کی فرقہ پرستی کے خلاف ہے کیونکہ یہ ملک کے اتحاد و سلامتی کے لئے تباہ کن ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ آزادی کے بعد جب مذہب کی بنیاد پر ملک کو تقسیم کرنے کی بعض لوگوں کی طرف سے سازش ہوئی تواس کے خلاف اٹھنے والی پہلی آواز جمعیۃ لماء ہند کی تھی۔ ہمارے بزرگوں کا نظریہ یہ تھا کہ جب ہم اس ملک میں تیرہ چودہ سو برس سے محبت اور اخوت کے ساتھ رہتے آئے ہیں تواب آزادی کے بعد ہم ایک ساتھ کیوں نہیں رہ سکتے۔
تلنگانہ: ریاستی اسمبلی کے سات روزہ اجلاس 37.44 گھنٹے تک جاری رہا’ 8 بل منظور
شمش آباد میں ایئر انڈیا کی طیارہ کی ہنگامی لینڈ نگ
Recent controversy over temples and mosques: RSS chief Mohan Bhagwat’s statement welcomed by religious and political leaders
بنگلہ دیش: تبلیغی جماعت میں خانہ جنگی،خونریزی میں 4 ہلاک 50 زخمی
انڈیا اتحا اور این ڈی اے کے اراکین پارلیمنٹ کا ایک دوسرے کے خلاف احتجاج