واشنگٹن — ۔امریکہ میں ایک سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ کی پولیس کی کارروائی میں ہلاکت کے واقعے نے بڑے پیمانے پر امریکیوں کی نظر میں پولیس کی کارکردگی پر سوال اٹھا دیے ہیں۔
ساتھ ہی، ان لوگوں کا معاملہ بھی سامنے آگیا ہے جو آج تک پولیس کے ہاتھوں جان سے گئے اور جوں جوں ایسے واقعات اور پولیس کے رویے کے بارے میں احتجاج بڑھتا جا رہا ہے، وہیں یہ مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے کہ پولیس کو ڈی فنڈ کر دیا جائے۔ اس کے معنی کیا ہو سکتے ہیں اس کے بارے میں امریکی میڈیا میں بہت کچھ لکھا جا رہا ہے۔
یو ایس اے ٹو ڈے کا کہنا ہے کہ اس کے معنی ہیں پولیس کے بجٹ کو کم کر دیا جائے یا پولیس کو دی جانے والی رقم ایسے فلاحی اداروں کو دی جائے جو معاشرے میں بہتری لا سکتے ہوں۔
امریکی ریاست اوریگن کے شہر یوجین میں کوہوٹس نامی ایک تنظیم ایسی ہے جو اکثر ایسے لوگوں کی مدد کرتی ہے جو کسی معاشرتی مسئلے کا شکار ہوتے ہیں، مگر پولیس کو نہیں بلانا چاہتے۔ اس تنظیم کی عہدیدار ایبنی مورگن نے امریکی ٹیلی وژن نیٹ ورک، سی این این کو بتایا کہ لوگ انہیں اپنی مشکل میں مدد کے لئے بلاتے ہیں اور انہیں یہ علم ہوتا ہے کہ ہم مسلح نہیں ہیں تو وہ بھی زیادہ مزاحمت نہیں کرتے۔ معاملہ کسی خاندانی جھگڑے کا ہو یا نفسیاتی کشمکش کا، وہ اس میں خاندانوں کی مدد کرتے ہیں، لیکن اگر صورتِ حال زیادہ خراب ہو تو پولیس کو بھی بلا لیا جاتا ہے۔پولیس کو ڈی فنڈ کرنے کا مطالبہ کرنے والوں کا یہی کہنا ہے کہ ان کی مدد کا کوئی ادارہ ایسا ہونا چاہئے جو تعصب سے پاک اور طاقت استعمال کرنے کی بجائے انسانی سطح پر مسائل کا حل نکال سکے۔ مگر پولیس کو مکمل طور پر ختم کرنے کے نظریے سے زیادہ اتفاق نہیں کیا جا رہا۔یہی وجہ ہے کہ سیکرامنٹو، کیلیفورنیا پولیس کے سربراہ ڈینیل ہان کہتے ہیں کہ کوئی اور معاشرتی ادارہ پولیس کا متبادل نہیں ہو سکتا۔ ان کا کہنا ہے کہ کوئی حادثہ ہو، کوئی ایمرجنسی ہو لوگ پولیس ہی کو بلاتے ہیں۔
یہی کہنا ہے شکاگو کی ول کاؤنٹی کے علاقے بولنگ بروکس کے پہلے مسلمان پاکستانی امریکی پولیس کمشنر طلعت رشید کا۔ وہ کہتے ہیں کہ پولیس امریکہ میں شہریوں کی جس طرح مدد کرتی ہے اور اس کی کثیر الجہت خدمات کا تقاضا ہے کہ اس کی زیادہ سے زیادہ حمایت کی جائے نہ کہ اس کا بجٹ ہی کم کر دیا جائے یا یہ محکمہ ہی ختم کر دیا جائے۔
شکاگو یونیورسٹی کے پروفیسر اور ریاست الی نوئے کی سپریم کورٹ میں اٹارنی ریجسٹریشن اینڈ ڈسپلنری کمشن کے کمشنر، ڈاکٹر ظفر بخاری کہتے ہیں کہ امریکہ میں پولیس میں بھرتی ہونے کیلئے کسی ڈگری کی ضرورت نہیں ہوتی۔ عام طور پر ہائی سکول مکمل کرنے کے بعد ہی نوجوان پولیس کی ملازمت اختیار کر لیتے ہیں اور افسر کہلاتے ہیں۔ ساتھ ہی انہیں بہت وسیع اختیارات بھی حاصل ہو جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پولیس میں ملازمت اور پولیس افسروں کی تربیت کے طریقہ کار پر نظرِ ثانی کی ضرورت ہے۔
پولیس کمشنر طلعت رشید کہتے ہیں کہ پولیس کے فرائض میں اتنے خطرات ہیں کہ انہیں بعض اوقات اپنی حفاظت کے لئے بھی بعض ایسے اقدامات کرنے پڑتے ہیں جو عام لوگوں کی نظر میں طاقت کا استعمال ہو سکتا ہے مگر ایسا اسی صورت میں ہوتا ہے جب کوئی ملزم اپنی گرفتاری میں مزاحمت کرتا ہے۔
ڈاکٹر بخاری کہتے ہیں پولیس کی تربیت میں بعض ایسی چیزیں شامل کرنے کی ضرورت ہے جن سے ان کی اخلاقی تربیت بھی ہو، ان کے خاندانی پس منظر کا بھی خیال رکھا جائے اور انہیں احساس ہو کہ وہ جسے گرفتار کر رہے ہیں وہ ملزم ہی سہی مگر ایک انسان ہے۔
امریکہ میں موجودہ احتجاجی مظاہروں میں افریقی امریکی اور ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنے والے ہر رنگ و نسل کے لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ پولیس سیاہ فام امریکیوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھتی ہے اور اب اسے ختم ہونا چائیے۔
ڈاکٹر ظفر بخاری کہتے ہیں امتیازی سلوک کی یہ شکایت ہمیشہ رہی ہے اور اسے مکمل طور پر ختم کرنا ممکن نہیں ہے جب تک کہ امریکی کانگریس اس کے لئے کوئی مزید قانون سازی نہیں کرتی۔
تاہم، پولیس کمشنر طلعت رشید کہتے ہیں کہ ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا۔ پولیس صرف اسے گرفتار کرتی ہے جو قانون کی خلاف ورزی کرے اور افریقی امریکیوں میں ایسے لوگوں کی تعداد زیادہ ہے جو جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں
تلنگانہ: ریاستی اسمبلی کے سات روزہ اجلاس 37.44 گھنٹے تک جاری رہا’ 8 بل منظور
شمش آباد میں ایئر انڈیا کی طیارہ کی ہنگامی لینڈ نگ
Recent controversy over temples and mosques: RSS chief Mohan Bhagwat’s statement welcomed by religious and political leaders
بنگلہ دیش: تبلیغی جماعت میں خانہ جنگی،خونریزی میں 4 ہلاک 50 زخمی
انڈیا اتحا اور این ڈی اے کے اراکین پارلیمنٹ کا ایک دوسرے کے خلاف احتجاج