تحریر:: ہمایوں سلیم
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2017میں یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر کے 2018میں اپنا سفارت خانہ منتقل کر کے جہاں عرب ممالک اور بعض یورپی ممالک کی مخالفت مول لی وہاں انھوں نے الیکشن کے دوران یہودیوں سے کیے اپنے وعہدے کو پورا کیا، پھر الیکشن میں انھوں نے اسرائیل سے ایک اور وعہدہ کیا تھا، وہ صدر اوباما کے دور میں اسرائیل کے دشمن ایران سے ایٹمی معاہدہ کو ختم کرنے کا تھا، چنانچہ ٹرمپ نے وہ وعدہ بھی نبھا دیا، اب انھوں نے25مارچ کو گولان کی مقبوضہ پہاڑیوں پر اسرائیل کی حاکمیت کو تسلیم کر کے صہیونی ایجنڈے کو مزید قوت بخشی ہے۔
اس حوالہ سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وقت آگیا ہے کہ واشنگٹن، متنازع گولان ہائیٹس پر ’اسرائیل کے کنٹرول‘ کو مکمل تسلیم کر لے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹوئٹ کیا کہ ’52 سال بعد وقت آگیا کہ واشنگٹن مکمل طور پر گولان ہائیٹس پر اسرائیلی خودمختاری کو تسلیم کر لے جو اسٹریٹجک اور سیکیورٹی کے تناظر میں اسرائیل اور خطے میں استحکام کے لیے ضروری ہے‘۔ مذکورہ ٹوئٹ کے بعد اسرائیل کے وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے اپنے ٹوئٹ میں امریکی صدر کے بیان کی حمایت کی۔ انہوں نے کہا کہ ’ایران، اسرائیل کو تباہ کرنے کے لیے شام کو استعمال کر رہا ہے‘۔ بینجمن نیتن یاہو نے امریکی صدر کی جانب سے اسرائیلی خودمختاری تسلیم کرنے سے متعلق بیان پر ’شکریہ صدر ٹرمپ‘ کہا۔ جبکہ اگلے روز انھوں نے متنازع گولان ہائٹس کے علاقے پر اسرائیل کی حاکمیت کو باضابطہ طور پر تسلیم کرتے ہوئے اس کی دستاویزات پر دستخط کر دیئے۔
واضح رہے کہ اسرائیل نے شام سے 1967 میں گولان ہائیٹس پر قبضہ کرلیا تھا اور گزشتہ ہفتے سالانہ انسانی حقوق کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ امریکی محکمہ خارجہ نے لفظ ’اسرائیلی قبضہ‘ کے بجائے ’اسرائیلی کنٹرول‘ استعمال کیا، جو امریکی پالیسی میں واضح تبدیلی کی جانب اشارہ ہے۔ خیال رہے کہ ٹرمپ کے اس اعلان سے ایک روز قبل بینجمن نیتن یاہو اور امریکی سیکریٹری اسٹیٹ مائیک پومپیو نے ملاقات میں ایرانی ’جارحیت‘ کا مقابلہ کرنے کا عزم کیا تھا۔ دونوں رہنماو¿ں کی ملاقات یروشلم میں ایسے وقت میں ہوئی جب اگلے ہفتے اسرائیل میں الیکشن ہو رہے ہیں۔اسرائیلی وزیر اعظم نے کہا تھا کہ ’ہمیں ایران پر مزید دباو¿ بڑھانے کی ضرورت ہے، اس کا دائرہ کار مزید وسیع ہونا چاہیے اور واشنگٹن اور اتل ابیب کو دنیا اور خطے میں بڑھتی ہوئی تہران کی جارحیت روکنے کے لیے قریبی روابط سے کام کرنا چاہیے‘۔
امریکی صدر کے اس اقدام کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران، لبنان، شام،اردن، سعودی عرب، روس، اقوام متحدہ اور یورپی ملکوں کی جانب سے مذمت کی گئی تھی اور شام نے اس معاملے پر بات کرنے کے لیے باضابطہ طور پر سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا ہے۔ اقوام متحدہ میں شامی مندوب نے کونسل کے صدر سے درخواست کی کہ گولان پہاڑیوں پر اسرائیلی قبضے کو تسلیم کر کے امریکا نے سیکیورٹی کونسل کی قرارداد کی خلاف ورزی کی ہے، اس معاملے پر بات کے لیے فوری طور پر سیکیورٹی کونسل کا اجلاس طلب کیا جائے۔
سعودی عرب نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے شام کے مقبوضہ علاقے گولان ہائٹس پر اسرائیل کی حاکمیت تسلیم کرنے کے فیصلے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دے دیا۔ سعودی پریس ایجنسی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ سعودی عرب امریکی انتظامیہ کی جانب سے گولان ہائٹس پر اسرائیل کی حاکمیت تسلیم کیے جانے کے اعلان کی شدید مذمت کرتا ہے اور اسے مکمل طور پر مسترد کرتا ہے‘۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ گولان ہائٹس شام کا مقبوضہ علاقہ ہے اور اس پر اسرائیل کی خود مختاری تسلیم کرنا اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قراردادوں کی خلاف ورزی ہے۔ سعودی عرب کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’ امریکا کے فیصلے سے مشرق وسطیٰ میں امن عمل اور خطے کے استحکام پر منفی اثرات مرتب ہوں گے‘۔ بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل اور ماضی میں امریکی انتظامیہ نے ہمیشہ گولان ہائٹس کو مقبوضہ علاقہ قرار دیا تھا جس سے متعلق حتمی فیصلہ اسرائیل اور شام کے درمیان امن معاہدے پر مذاکرات کے تحت کیا جانا تھا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے ساتھ پالیسی یوٹرن کی وجہ سے اپنے اتحادیوں کو ساتھ تعلقات برقرار رکھنے میں ناکام ہوگئے ہیں۔
دوسری جانب اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے مستقل اراکین برطانیہ اور فرانس نے کہا ہے کہ وہ چین اور روس کی طرح گولان ہائٹس کو اقوام متحدہ کی قرارداد کے عین مطابق مقبوضہ علاقہ ہی تسلیم کریں گے۔ لبنان اور اردن کی جانب سے بھی امریکی صدر کے فیصلے کی شدید مذمت کی گئی، اس حوالے سے اردن کا کہنا تھا کہ گولان ہائٹس پر اسرائیل کی حاکمیت تسلیم کرنے سے زیرِقبضہ دیگر علاقوں پر اس کی خودمختاری تسلیم کرنے کی راہ ہموار ہوجائےگی۔
عرب پارلیمنٹ نے گولان ہائٹس پر اسرائیلی حاکمیت تسلیم کرنے کے اعلان کو غیر آئینی قرار دیا ہے۔ پارلیمنٹ کا کہنا ہے کہ گولان کو اسرائیل کا حصہ تسلیم کرنے سے خطے میں بدامنی اور عدم استحکام کی ایک نئی لہر سر اٹھا سکتی ہے اور اس عدم استحکام کا ذمہ دار صرف امریکا ہوگا۔ عرب پارلیمنٹ کے سربراہ مشعل بن فھم السلمی نے اس حوالے سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا کہ امریکی صدر نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے بعد ایک مرتبہ پھر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سیکیورٹی کونسل کی قرارداد 242 اور 497 کی خلاف ورزی کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عرب ممالک، امریکی صدر کے ناجائز فیصلے کو قبول نہیں کرتے۔ عرب لیگ کے سیکریٹری جنرل احمد ابو الغیط نے امریکی صدر کے اعلان کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ گولان ہائٹس پر اسرائیل کی خودمختاری کو تسلیم کرنا عالمی قوانین، اقوام متحدہ کی قراردادوں اور عالمی برادری کے اصولی موقف کی توہین ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکی صدر کے اعلان سے گولان ہائٹس کی قانونی حیثیت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ جنرل احمد ابو الغیط نے کہا کہ گولان ہائٹس شام کا مقبوضہ علاقہ ہے جس پر اسرائیل کی حاکمیت تسلیم کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ انہوں نے کہا کہ 1981 میں سلامتی کونسل نے قرارداد 497 منظور کرکے واضح کردیا تھا کہ گولان ہائٹس اسرائیل کا حصہ نہیں بنے گا۔
واضع رہے کہ رواں برس مارچ میں سالانہ انسانی حقوق کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ امریکی محکمہ خارجہ نے لفظ ’اسرائیلی قبضہ‘ کے بجائے ’اسرائیلی کنٹرول‘ استعمال کیا، جو امریکی پالیسی میں واضح تبدیلی کی جانب اشارہ ہے۔ بعد ازاں فلسطینی صدر محمود عباس کے ترجمان نے امریکا کی جانب سے انسانی حقوق کی سالانہ رپورٹ میں مغربی کنارے، غزہ کی پٹی اور گولان ہائٹس کو زیر قبضہ علاقے قرار نہ دینے کے اقدام پر تنقید کی ہے۔علاوہ ازیں گزشتہ برس جاری کی گئی رپورٹ میں معنی کے اعتبار سے متعلق ایک اور تبدیلی رواں برس کی رپورٹ میں بھی موجود تھی جس میں ایک حصے کا عنوان ’ اسرائیل، گولان ہائٹس، مغربی کنارہ اور غزہ ‘ تھا جبکہ اس سے قبل یہ عنوان ’اسرائیل اور زیرِ قبضہ علاقے‘ تھا۔ تاہم امریکا کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے اصرار کیا کہ مختلف الفاظ کا مطلب پالیسی کی تبدیلی نہیں ہے۔
ادھر ایران کے صدر حسن روحانی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر ’نوآبادیاتی نظام‘ کو تسلیم کرنے کا الزام عائد کردیا۔ امریکا کی جانب سے گولن لائٹس پر اسرائیلی قبضے کو باقاعدہ تسلیم کرنے پر ایران نے الزام لگایا۔
اس حوالے سے ایران کے صدر حسن روحانی نے کہا کہ ’ایک وقت تھا جب نوآباداتی نظام رائج تھا، بعض ریاستوں نے اپنے طاقت کی بدولت پڑوسی ممالک پر قبضہ کیا لیکن یہ ناقابل فہم ہے کہ اس دور میں بھی نوآباداتی نظام کو تسلیم کیا جارہا ہے‘۔ تہران کی سرکاری ویب سائٹ پر جاری بیان میں مزید کہا گیا کہ ’کسی کے لیے بھی یہ بات نہ قابل یقین نہیں کہ ایک شخص امریکا پہنچا اور انفرادی طور پر تمام عالمی قوانین اور ضابطے جو ایک قابض کے خلاف ہوتے ہیں انہیں ایک طرف پھینک دیے جائیں‘۔انھوں نے کہا کہ امریکی صدر کے اس اقدام نے امریکا کی پالیسی کو نصف صدی سے زائد عرصے پیچھے دھکیل دیا ہے۔
جبکہ اسلامی مزاحمتی تحریک حزب کے سربراہ سید حسن نصراللہ نے امریکی صدر کی جانب سے جولان کی پہاڑیوں کے متعلق بیان پرسخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اس اقدام کو امن کے خلاف سازش قرار دیاہے۔ سیدحسن نصراللہ کا کہنا ہے کہ امریکی صدر کا بیان متعصبانہ اور عالم اسلام کی توہین ہے۔حزب اللہ کے سربراہ نے عرب ممالک کے سربراہ سے کہا ہے کہ وہ تیونس کے اجلاس میں عرب مفاہمتی عمل کے فارمولے پرنظرثانی کریں۔
سید حسن نصراللہ نے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومیؤ کے دورہ لبنان پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا امریکی وزیرخارجہ نے بیروت میں اسلامی جمہوریہ ایران اور اسلامی مزاحتمی تحریک کے خلاف من گھڑت اور جھوٹے دعوے کئے جو قابل مذمت ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی مزاحتمی تحریک حزب اللہ 34 سال سے لبنان کا دفاع کررہی ہے۔ سید حسن نصراللہ نے خطے میں امریکی پالیسی کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ امریکا اسرائیل کی قبضہ گری کی پالیسی کو تسلیم کر کے لبنانی عوام کو خطرات سے دو چار کر رہا ہے۔امریکی صدر کے غیرذّمدارانہ اقدام پر اسلامی جمہوریہ ایران، سمیت متعدد ممالک نے سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے اس اقدام کو پورے خطے کے لئے خطرناک قرار دیا ہے۔