تہران،۱۲؍دسمبر-ایران میں رواں ماہ کے آغاز پر ایرانی نڑاد آسٹریلوی محققہ اور آبادی کے امور کی ماہر میمنت حسینی کو گرفتار کر لیا گیا۔ عدالتی حکام یا سکیورٹی اداروں کے سرکاری اجازت نامے کے بغیر ہونے والی اس گرفتاری کے بعد انسانی حقوق کی کئی تنظیموں نے میمنت کے انجام کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ بالخصوص ایرانی عدلیہ کے سرکاری ترجمان کے اس اعلان کے بعد جس بتایا گیا کہ میمنت کو آبادی کے کنٹرول سے متعلق بیان دینے کے پس منظر میں گرفتار کیا گیا۔ ایرانی حکام نے آسٹریلوی محققہ کے فعل کو “خفیہ دراندازی” قرار دیا ہے۔میمنت کی گرفتاری کے کئی روز بعد اْن کے وکیل محمود بہزادی کا کہنا ہے کہ اْن کی مؤکلہ کا نام جنرل پراسیکیوشن کے پاس رجسٹرڈ نہیں ہوا۔ اس کا مطلب ہے کہ عدلیہ کے سربراہ کی جانب سے میمنت کو وکیل کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ بہزادی نے بتایا کہ “قانون کے مطابق گرفتار ہونے والا ہر فرد جنرل پراسیکیوشن کے پاس رجسٹرڈ ہو کر جیل اتھارٹی کے زیر نگرانی ہوتا ہے۔ تاہم بدقسمتی سے میمنت حسینی کا نام جیل انتظامیہ کی فہرست میں مندرج نہیں ہو سکا۔ ہمیں اس کا انتظار کرنا ہو گا”۔اس سے قبل ایرانی سرکاری نیوز ایجنسی اِرنا نے بتایا تھا کہ میمنت پر “درانداز عنصر” ہونے کا الزام عائد کرنے کے بعد اْن کو گرفتار کیا گیا اور انہیں اپنے لیے وکیل منتخب کرنے سے بھی روک دیا گیا۔روزنامہ کیہان کے مطابق ایرانی حکام نے آبادی کے امور کی محققہ کو اْس وقت حراست میں لیا جب وہ ایران سے روانہ ہو رہی تھیں۔یاد رہے کہ میمنت آسٹریلیا میں میلبرن یونیورسٹی کے ایک انسٹی ٹیوٹ میں بطور محققہ کام کرتی ہیں۔ ان کی ایک کتاب The Fertility Transition in Iranمنظر عام پر آ چکی ہے۔ میمنت نے ایران کی جانب سے منعقد 2010 کا عالمی لکھاریوں کا ایوارڈ بھی اپنے نام کیا۔ایران کے رہبر اعلی علی خامنہ ای نے تقریبا دو سال قبل ایک فرمان جاری کیا تھا جس میں ایرانیوں پر کثرت اولاد کے لیے زور دیا گیا اور کنواروں، بیواؤں اور رنڈوؤں کی شادی کی ضرورت کو باور کرایا گیا۔ خامنہ ای بارہا یہ کہہ چکے ہیں کہ ایران کی آبادی محض 7.5 کروڑ نہیں بلکہ 15 کروڑ ہونی چاہیے۔