Murshidabad: Protests against Waqf Bill leave 3 dead, over 120 arrested
مرشد آباد میں تشدد کے درمیان انٹرنیٹ بند کر دیا گیا ہے۔ دفعہ 163 (کرفیو) نافذ کر دیا گیا ہے
کلکتہ 12اپریل:’مغربی بنگال میں وقف ایکٹ کے خلاف جاری احتجاج تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ مرشد آباد ضلع میں جاری پرتشدد مظاہروں میں تین لوگوں کی موت ہو گئی۔ اس میں باپ بیٹا بھی شامل ہیں۔ یہ دونوں شمشیر گنج بلاک کے جعفرآباد میں ہوئے تشدد میں مارے گئے تھے۔ان دونوں کی لاشیں ان کے گھر سے ملی ہیں۔ اس کے جسم پر چاقو کے کئی زخم پائے گئے۔ اہل خانہ کا کہنا تھا کہ ہمارے گھر میں لوٹ مار کی گئی اور باپ بیٹے کو چھریوں کے وار کر کے قتل کیا گیا۔
مرشدآباد کے تشدد زدہ علاقوں میں مرکزی فورسز کی تعیناتی کے احکامات جاری یہاں مرشد آباد میں جاری تشدد کو دیکھتے ہوئے کلکتہ ہائی کورٹ نے بڑا حکم دیا ہے۔ ہائی کورٹ نے مرشد آباد کے تشدد زدہ علاقوں میں مرکزی فورسز کی تعیناتی کا حکم دیا ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ بی جے پی لیڈر سویندو ادھیکاری نے ہائی کورٹ سے مرشد آباد میں مرکزی فورسز کی تعیناتی کا مطالبہ کیا تھا۔ ان کے مطالبے کو ریاستی حکومت نے غیر ضروری قرار دیا۔ لیکن ہائی کورٹ کے جسٹس سومن سین اور جسٹس راجہ باسو چودھری کی ڈبل بنچ نے مرشد آباد کے جنگی پور میں مرکزی فورسز کی تعیناتی کا حکم دیا۔ ضلع میں جاری پرتشدد مظاہروں کے دوران فائرنگ بھی ہوئی۔ ہفتہ کو تشدد کا تازہ واقعہ مسلم اکثریتی ضلع کے شمشیر گنج بلاک کے دھولیاں میں پیش آیا۔ پولیس نے بتایا کہ وقف (ترمیمی) ایکٹ کے خلاف احتجاج میں جمعہ کو ضلع کے سوتی اور سمسر گنج علاقوں سے بڑے پیمانے پر تشدد کی اطلاع ملی ہے۔پولیس افسر نے بتایا کہ فائرنگ کس نے کی، تفتیش جاری ہے۔
ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل آف پولیس (امن و امان) جاوید شمیم نے کولکتہ میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ہوسکتا ہے کہ مقامی پولیس فائرنگ کے واقعے میں ملوث نہ ہو اور یہ کارروائی بارڈر سیکیورٹی فورس (بی ایس ایف) نے کی ہو۔ انہوں نے کہا کہ “یہ ابتدائی معلومات ہے جس کی ہمیں دو بار جانچ کرنے کی ضرورت ہے۔تشدد کے بعد کچھ علاقوں میں بی ایس ایف کو تعینات کر دیا گیا۔تاہم شمیم نے بتایا کہ زخمی شخص کو اسپتال میں داخل کرایا گیا ہے اور اس کی حالت خطرے سے باہر بتائی جاتی ہے۔ جمعہ کے تشدد کے بعد بنگلہ دیش کی سرحد سے متصل ضلع کے کچھ علاقوں میں بی ایس ایف کو تعینات کیا گیا تھا۔
دریں اثنا، وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے ایک سوشل میڈیا پیغام میں سبھی سے پرسکون رہنے کی اپیل کی ہے۔ دوسری جانب مغربی بنگال کے ڈی جی پی نے فسادیوں کے خلاف سخت کارروائی کا انتباہ دیا ہے۔
دریں اثنا، شمشیر گنج میں باپ بیٹے کے قتل میں پولیس کے کردار سے مقامی لوگ غیر مطمئن ہیں۔ واقعہ کی اطلاع ملنے پر پولیس لاش کو قبضے میں لینے گئی تو انہیں روک دیا گیا۔ بی ایس ایف اب علاقے میں گشت کر رہی ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ واقعہ جعفرآباد، رانی پور، شمشیر گنج میں پیش آیا۔ مبینہ طور پر، باپ بیٹے کو پہلے مارا پیٹا گیا، پھر تیز دھار ہتھیار سے قتل کیا گیا۔ پھر گھر اور گاڑی جلا دی گئی۔ مبینہ طور پر پولیس کو بار بار بلایا گیا لیکن وہ نہیں پہنچی۔قبل ازیں بتایا گیا تھا کہ مرشدآباد میں ہفتہ کی صبح تک حالات معمول پر تھے۔ تاہم، جیسے جیسے دن بڑھتا گیا، تشدد پھر سے پھوٹ پڑا۔ اطلاعات کے مطابق دھولیان میونسپلٹی میں توڑ پھوڑ کی گئی ہے۔ اس دوران ایک پرائیویٹ اسپتال میں توڑ پھوڑ کی گئی اور بعد میں آگ لگا دی گئی۔ اس دوران فرکا سے ممبر اسمبلی منیر الاسلام کے دادا علی کے گھر میں بھی مبینہ طور پر توڑ پھوڑ کی گئی۔ یہاں تک کہ ایم ایل اے کو بھی مبینہ طور پر ہراساں کیا گیا۔ ادھر مرشد آباد میں تشدد کے الزام میں پولس اب تک سو سے زیادہ لوگوں کو گرفتار کر چکی ہے۔ پولیس کے ساتھ ساتھ بی ایس ایف بھی علاقے میں گشت کر رہی ہے۔
اس سے قبل جمعہ کو پولیس کی ایک گاڑی کو مبینہ طور پر آگ لگا دی گئی تھی۔ وقف مظاہرین نے ریلوے اسٹیشن سے قومی شاہراہ تک ہنگامہ آرائی کی۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ بی ایس ایف نے صورتحال پر قابو پانے کے لیے اضافی فورسز کو جائے وقوعہ پر بھیج دیا ہے۔ دوسری جانب پولیس نے افواہیں پھیلانے پر سخت کارروائی کا انتباہ دیا ہے۔ دریں اثنا، بی جے پی کا دعویٰ ہے کہ پولس امتلہ سے لے کر مرشدآباد تک ہر جگہ ‘ناکام رہی ہے۔ اس ماحول میں بھگوا کیمپ نے حکومت کے خلاف بیان بازی شروع کردی ہے۔
دعویٰ کیا گیا ہے کہ فرکاکے ایس ڈی پی او منیر الاسلام خان گزشتہ روز پولیس اور عوامی جھڑپ میں زخمی ہوگئے تھے۔ مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے گولے داغے گئے۔ پولیس نے لاٹھی چارج بھی کیا۔ اس کے بعد مشتعل مظاہرین نے سجورمور میں پولیس پر بم پھینکے۔ اس دوران پولیس نے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر وہاں کے حالات سے نمٹنے کی بہادری سے کوشش کی۔ تاہم وقف کے مظاہرین کا غصہ بڑھتے ہی یہ دعویٰ کیا گیا کہ کئی پولیس والوں کو اپنی جان بچانے کے لیے مساجد میں پناہ لینی پڑی
اب تک 120 سے زائد افراد کو گرفتار
شمیم نے کہا کہ تشدد کے واقعات میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے الزام میں اب تک 120 سے زائد افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چھاپے جاری رہنے سے تعداد بڑھے گی۔ انہوں نے لوگوں پر زور دیا کہ وہ سوشل میڈیا پر پھیلائی جارہی افواہوں کو نظر انداز کریں اور امن برقرار رکھیں۔سوتی کے علاقے میں تشدد سے ایک لڑکا زخمی بھی ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ اے ڈی جی اور انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی) کی سطح کے سینئر افسران مرشد آباد کی صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور کسی بھی جھڑپ کو روکنے کے لیے خصوصی دستے تعینات کیے گئے ہیں۔ دریں اثنا، ایک اہلکار نے پہلے کہا تھا کہ ضلع کے سوتی علاقے میں جھڑپوں کے دوران مبینہ طور پر پولیس کی فائرنگ سے زخمی ہونے والے ایک نوجوان کو کولکتہ کے ایک اسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔
ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پولیس کے ڈائریکٹر جنرل راجیو کمار نے کہا کہ تشدد میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی اور پولیس اہلکار معصوم شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔مرشد آباد تشدد کے معاملے میں وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے لوگوں سے امن کی اپیل کی ہے۔ اب ان کے بھتیجے ٹی ایم سی لیڈر ابھیشیک بنرجی نے بھی لوگوں سے امن کی اپیل کی ہے۔ دوسری طرف بی جے پی لیڈر سویندو ادھیکاری نے مرشد آباد میں مرکزی فورسز کی تعیناتی کا مطالبہ کیا ہے۔
انٹرنیٹ بند ۔ کرفیو نافذ
میڈیا رپورٹس کے مطابق مرشد آباد میں تشدد کے درمیان انٹرنیٹ بند کر دیا گیا ہے۔ دفعہ 163 (کرفیو) نافذ کر دیا گیا ہے۔ معلوم ہو کہ 11 اپریل کو نماز جمعہ کے دن مرشد آباد میں وقف قانون کو لے کر پھر سے تشدد پھوٹ پڑا تھا۔ جس میں کئی علاقوں میں زبردست توڑ پھوڑ، آتش زنی اور پتھراؤ کیا گیا۔ پولیس سے موصولہ اطلاع کے مطابق اس پرتشدد احتجاج میں 15 پولیس اہلکار زخمی بھی ہوئے ہیں۔