امریکہ کا کہنا ہے کہ وہ اقوامِ متحدہ کی جانب سے شدت پسند سیف العدل کو عالمی دہشت گرد تنظیم القاعدہ کے نئے عملی سربراہ قرار دیے جانے کے مؤقف سے متفق ہے۔
منگل کو جاری ہونے والی اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ تنظیم کے رکن ممالک کا غالب مؤقف یہی ہے کہ سیف العدل اب گروپ کے نئے قائد ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ’نومبر اور دسمبر کے درمیان ہونے والی بات چیت میں زیادہ تر رکن ممالک کا مؤقف یہی تھا کہ سیف العدل فی الوقت متفقہ قائد کے طور پر کام کر رہے ہیں۔‘
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکی محکمۂ خارجہ کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ ’ہمارے جائزے کے نتائج بھی اقوامِ متحدہ کے اندازوں سے مطابقت رکھتے ہیں کہ القاعدہ کے نئے ڈی فیکٹو قائد سیف العدل ہیں جو ایران میں مقیم ہیں۔‘
اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق القاعدہ نے سیف العدل کو باقاعدہ امیر مقرر نہیں کیا اور اس کی ممکنہ وجہ افغانستان میں طالبان حکومت کے خدشات ہو سکتے ہیں جو یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ القاعدہ کے گذشتہ سربراہ ایمن الظواہری کابل میں ایک مکان پر امریکی راکٹ حملے میں مارے گئے تھے۔
مصر میں پیدا ہونے والے سیف العدل ایمن الظواہری کے نائبین قرار دیے گئے پانچ القاعدہ رہنماؤں میں سے آخری زندہ شخص ہیں اور ایمن الظواہری کی ہلاکت کے بعد یہی غالب خیال تھا کہ وہی ممکنہ طور پر ان کے جانشین ہوں گے۔
ایک پراسرار شخصیت
سیف العدل القاعدہ کے بانی ارکان میں سے ہیں اور اسامہ بن لادن کے بھروسہ مند ساتھیوں میں سے رہے ہیں۔ وہ ایک پراسرار شخصیت ہیں اور اپنے حلقے میں کافی مقبول بھی ہیں۔
امریکی حکام کی بھی ان میں کافی دلچسپی رہی ہے اور وہ امریکہ کے فیڈرل بیورو آف انویسٹیگیشن (ایف بی آئی) کی ’سب سے مطلوب دہشتگردوں کی فہرست‘ میں بھی موجود ہیں۔ ایف بی آئی نے ان کی معلومات فراہم کرنے پر ایک کروڑ ڈالر انعامی رقم کا اعلان کر رکھا ہے۔
ان پر اگست 1998 میں کینیا اور تنزانیہ میں امریکی سفارت خانوں پر بیک وقت ہونے والے بم حملوں کی منصوبہ بندی کا الزام عائد کیا جاتا ہے جس میں 220 سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے تھے مگر اطلاعات کے مطابق اُنھوں نے 11 ستمبر کو واشنگٹن اور نیویارک پر ہونے والے حملوں کی مخالفت کی تھی۔
فروری 2021 میں امریکی ملٹری اکیڈمی (ویسٹ پوائنٹ) کے محققین کی ایک دستاویز میں دعویٰ کیا گیا کہ سیف العدل اور دیگر سینیئر القاعدہ رہنماؤں کو خوف تھا کہ امریکی سرزمین پر ایک بڑے حملے کا بھرپور ردِ عمل سامنے آ سکتا ہے جس میں افغانستان پر حملہ بھی شامل ہو سکتا ہے جو اس وقت القاعدہ ارکان کے لیے ایک محفوظ ٹھکانہ تھا۔
ان افراد کا یہ خدشہ بعد میں درست ثابت ہوا۔
ابتدائی ایام
القاعدہ میں شمولیت سے پہلے کی ان کی زندگی کے بارے میں کچھ زیادہ معلومات نہیں ہیں۔ ایف بی آئی کے مطابق العدل 11 اپریل 1963 یا پھر اس سے تین سال پہلے پیدا ہوئے۔
القاعدہ تنظیم میں اعلیٰ رتبے کے باوجود وہ گروہ کی جانب سے نشر ہونے والے پروپیگنڈا میں بہت کم نظر آئے تاہم انھوں نے ماضی میں کئی موضوعات بشمول ‘سکیورٹی اور انٹیلیجنس’، جنگ، اور انقلابوں پر لکھا ہے۔
ان کی اصل شناخت کے بارے میں بھی ابہام ہے۔ ان کا نام سیف العدل جس کا عربی میں مطلب ’انصاف کی تلوار‘ ہے، بھی غالباً ایک فرضی نام ہے۔
امریکی ملٹری اکیڈمی (ویسٹ پوائنٹ) کے محققین دعویٰ کرتے ہیں کہ سیف العدل کو اکثر غلطی سے مصری فوج کے سپیشل فورسز دستے کے سابق کرنل محمد ابراہیم سے ملایا جاتا ہے۔
ان کے بارے میں یہ بات معلوم ہے کہ انھوں نے افغانستان میں 1980 کی دہائی میں اسامہ بن لادن کے ساتھ اس وقت سوویت یونین کے خلاف جنگ میں حصہ لیا جب القاعدہ کی بنیاد رکھی جا رہی تھی۔
افغانستان کے بعد العدل صومالیہ منتقل ہوئے جہاں انھوں نے خانہ جنگی میں امریکی مداخلت کے خلاف لڑنے کے لیے مقامی جنگجوؤں کو تربیت دی۔
اس لڑائی کو اس وقت عالمی شہرت ملی جب صومالیہ کے دارالحکومت موغادیشو میں دو امریکی بلیک ہاک ہیلی کاپٹر راکٹ سے تباہ کر دیے گئے تھے۔ اس واقعے پر سنہ 2001 میں ہالی وڈ فلم بلیک ہاک ڈاؤن بھی بنائی گئی تھی۔
خیال کیا جاتا ہے کہ ان میں سے ایک راکٹ سیف العدل کے گروہ کے تیونس سے تعلق رکھنے والے رکن نے چلایا تھا۔
سیف العدل 90 کی دہائی میں افغانستان لوٹے۔ یہ وہ وقت تھا جب افغانستان میں طالبان اپنا اثر و رسوخ جما رہے تھے۔ وہ 2001 میں امریکی حملے کے بعد ملک چھوڑ کر چند القاعدہ اراکین کے ہمراہ ایران منتقل ہو گئے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ ان کو ایرانی حکام نے سنہ 2003 میں حراست میں لے لیا تھا۔ 12 سال بعد ان کو قیدیوں کے ایک تبادلے میں دیگر القاعدہ اراکین کے ساتھ رہا کر دیا گیا تھا۔
اس طویل حراست کے باوجود سیف العدل کو القاعدہ میں اہم شخصیت کا درجہ حاصل رہا اور انھوں نے 2011 میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد ایمن الظواہری کو تنظیم کے نئے سربراہ کے طور پر مستحکم کرنے میں بھی مدد فراہم کی تھی۔