بین المذاہب جوڑوں کو پریشان کرنے کے لیئے قانون بنایا گیا: جمعیۃ علماء ہند
نئی دہلی: — ہندوستان کی پانچ مختلف ریاستوں کی جانب سے بنائے گئے تبدیلی مذہب (لو جہاد) قوانین کی آئینی حیثیت کو جمعیۃ علماء ہندنے سپریم کورٹ آف انڈیا میں چیلنج کیا ہے، جمعیۃ علماء ہند نے آئین ہند کے آرٹیکل 32/ کے تحت مفاد عامہ کی پٹیشن داخل کی ہے، پٹیشن سینئر ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول نے تیار کی ہے جس پر 16/ جنوری کو چیف جسٹس آف انڈیا کی سربراہی والی تین رکنی بینچ کے سامنے سماعت متوقع ہے۔ صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا ارشد مدنی کی ہدایت پر جمعیۃ علماء قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی کی جانب سے تازہ پٹیشن داخل کی گئی تھی جس میں کہا گیا ہے کہ ن قوانین کو بنانے کا مقصد درحقیقت ہندو اور مسلمان کے درمیان ہونے والی بین المذہب شادیوں کو روکنا ہے جو کہ آئین ہند میں دی گئی مذہبی آزادی کے خلاف ہے اور اس سے شخصی آزادی بھی مجروح ہوتی ہے،جس کا التزام آئین میں موجود ہے۔ عرضداشت میں مزید کہا گی اہے کہ ان قوانین کے ذریعہ مذہبی اور ذاتی آزادی پر روک لگانے کی کوشش کی گئی ہے جو غیر آئینی ہے لہذا سپریم کورٹ کو مداخلت کرکے ریاستوں کو ایسے قوانین بنانے سے روکنا چاہئے نیز جن ریاستوں نے ایسے قوانین بنائے ہیں انہیں ختم کردیا جانا چاہئے۔عرضداشت میں مزید کہاگیا کہ لو جہاد قانون بنانے کا ایک دوسرا پہلو یہ بھی ہیکہ بین المذاہب جوڑوں کو پریشان کیاجائے تاکہ ایسی شادیوں پر روک لگ سکے۔عرضداشت میں مزید تحریر کیا گیا ہے کہ لو جہاد قانون کے ذریعہ ایک بڑی تعداد میں مسلمانوں کو گرفتار کیاجاچکا ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے لہذا مسلمانوں کے خلاف بنائے گئے اس غیر آئینی قانو ن کو ختم کرنا چاہئے نیز سپریم کورٹ کو تمام ریاستوں کو حکم دینا چاہئے کہ وہ ایسے قانون بنانے سے گریز کریں۔ پٹیشن میں مزید تحریر کیا گیا ہے کہ ان قوانین کے تحت مذہب تبدیل کرنے والے کے رشتہ دار بھی پولس میں شکایت درج کراسکتے ہیں جس کی وجہ سے ایک مخصوص طبقہ کے خلاف جھوٹے مقدمات داخل کیئے جارہے ہیں جس پر روک لگانے کے لیئے ان قوانین پر قدغن لگانا ضروری ہے۔ لو جہاد قانون آئین ہند میں دی گئی شخصی آزادی آرٹیکل 19اور 21 کی خلاف وزری نیز اس قانون کے تحت مذہب تبدیل کرنے سے پہلے مجسٹریٹ کی اجازت لینا بھی قابل اعتراض ہے کیونکہ مذہب تبدیل کرنا یا مذہب پر عمل کرنا شخصی آزادی ہے جو آئین ہند نے ہندوستان کے تمام شہریوں کو دی ہے۔اس قانون کے مطابق مذہب تبدیل کرانے والے مذہبی شخص کو بھی مجسٹریٹ سے تحریری اجازت لینا ضروری ہے، رشتہ داروں کو شکایت کی اجازت دینے سے مذہب تبدیل کرنے والوں کو پریشان کرنے کے واقعا ت میں اضافہ ہوا ہے نیز غیر ت کے نام پر قتل (ہانر کلنگ) کے واقعات بھی ہورہے ہیں، مذہب تبدیل کرکے اپنی پسند کے لڑکے لڑکی سے شادی کرنے والے بالغ لڑکے لڑکیوں، مرد و خواتین کی آئینی آزادی چھیننے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جمعیۃ علماء ہند کی پٹیشن میں اتر پردیش پروہیبشن آف ین لاء فل کنورژن آف ریلجن ایکٹ 2021، دی اترا کھنڈ فریڈم آف ریلیجن ایکٹ 2018، ہماچل پردیش فریڈم آف ریلیجن ایکٹ 2019، مدھیہ پردیش فریڈم آف ریلیجن ایکٹ2021 اور گجرات فریڈم آف ریلیجن ایکٹ 2021قوانین کی آئینی حیثیت کو چیلنج کیا گیاہے۔ اس سے قبل جمعیۃ علماء نے سٹیزن فار جسٹس اینڈ پیس نامی آرگنائزیشن کی جانب سے داخل پٹیشن میں مداخلت کار کی حیثیت سے عرضداشت داخل کی تھی جسے عدالت نے منظور بھی کرلیا تھا لیکن گذشتہ سماعت پر متذکرہ تنظیم نے پٹیشن واپس لے لی جس کے بعد جمعیۃ علماء ہند نے تازہ پٹیشن داخل کیا ہے۔