سپریم کورٹ نے راجیو گاندھی کے قاتلوں کو رہا کر دیا

نئی دہلی’۱۱ نومبر۔ ۔سپریم کورٹ نے سابق وزیراعظم راجیو گاندھی کے قتل کے الزام میں سزا یافتہ چھ مجرموں کی رہائی کا حکم دیا ہے۔
واضح رہے کے راجیو گاندھی 46 برس کے تھے جب 1991 میں انتخابی مہم کے دوران ایک خاتون نے راجیو گاندھی پر حملہ کیا تھا۔سری لنکا کی علیحدگی پسند تنظیم لبریشن ٹائیگرز آف تامل ایلام راجیو گاندھی کے قتل میں ملوث تھی۔سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ سزا یافتہ افراد کو جیل میں ’مناسب برتاؤ‘ کی وجہ سے رہا کیا جا رہا ہے اور انہوں نے تین دہائیوں سے زیادہ وقت جیل میں گزارا ہے۔
چھ میں سے تین مجرموں کی سزا میں کمی سے قبل ان کو سزائے موت کی سزا سنائی گئی تھی، اس مقدمے میں وہ آخری مجرم تھے جو اب بھی جیل میں تھے۔ دو مجرم ایسے تھے جو پہلے ہی پیرول پر تھے اور جیل سے باہر تھے۔
رہائی کے بعد نلینی شری ہارن کا کہنا تھا کہ ’میں بہت خوش ہوں۔۔ میں سب کی شکرگزار ہوں۔ گزشتہ 32 سال جدوجہد اور مشکل میں گزرے۔‘نلینی شری ہارن اور ان کے شوہر کو بھی سزائے موت سنائی گئی تھی تاہم 2000 میں ان کی سزا میں کمی کر دی گئی تھی۔1984 میں ایک سکھ محافظ کے ہاتھوں اندرا گاندھی کے قتل کے بعد راجیو گاندھی ہندوستان کے وزیراعظم بنے تھے۔کئی دہائیوں سے املک کی سیاست میں کانگریس نمایاں رہی ہے۔ راجیو گاندھی کی بیوہ سونیا گاندھی کو تنظیم میں سب سے طاقتور شخصیت مانا جاتا ہے جب کہ ان کے بیٹے راہل گاندھی کو موجودہ وزیراعظم مودی کا مدمقابل تسلیم کیا جاتا ہے۔راجیو گاندھی کا قتل 1987 میں تامل باغیوں کو غیرمسلح کرنے کے لیے ہندوستان کی کو فوج سری لنکا بھیجنے کا ردعمل سمجھا جاتا ہے۔
اس وقی کی مر کزی حکومت نے بعد میں اپنے فوجی سری لنکا سے بلا لیے تھے۔ تامل باغیوں کے ساتھ لڑائی میںہندوستان کے ایک ہزار سے زیادہ فوجی ہلاک ہوئے تھے۔ملک میں سزا یافتہ مجرموں کی رہائی موضوع بحث رہا۔ کانگریس نے عدالت کے فیصلے کو ’مکمل طور پر ناقابل قبول اور غلط‘ قرار دیا ہے۔ تامل ناڈو کی ریاستی حکومت نے مجرموں کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔2018 میں راجیو گاندھی کے بیٹے راہل گاندھی نے کہا تھا کہ انہوں نے اور ان کی بہن پرینکا گاندھی نے اپنے والد کے قاتلوں کو معاف کیا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں