علی گڑھ اپنی اعلیٰ تعلیم اور تالوں کی وجہ سے ملک بھر میں معروف و مشہور ہے اس کی پہچان علی گڑھ مسلم یونیور سٹی کی وجہ سے ملک و بیرون ملک میں ہے مسلم یونیورسٹی کی وجہ سے یہاںکا مسلم سیاست سے گہرا تعلق ہے کہا جاتاہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہندوستانی مسلمانوں کی نبض ہے کئی ایسی سیاسی سخصیات یہاں سے نکلی ہیں جنہوں نے طلبا لیڈر شپ سے کابینہ وزیر اور گورنر جیسے عہدے پر فائز رہے ہیں جن میں محمد اعظم خاں ،عارف محمد خاں ،علی اشرف فاطمی ،وقار شاہ جیسے نام اہم ہیں یوں تو علی گڑھ میں 7 اسمبلی حلقہ ہیں لیکن ان میں دو اسمبلی حلقہ میں مسلم ووٹرس کی اکثریت ہے اور جہاں کئی بار مسلم امیدوار کامیاب رہے ہیں آج ہم بات کریں گے شہر اسمبلی حلقہ کی جہاں آزادی کے بعد سے ہوئے اب تک کے 17انتخابات میں 7بار مسلم امیدوار اس سیٹ سے کامیاب ہوئے ہیں 1957اور 2002کے الیکشن کو چھوڑ کر دیگر انتخاب میں 9بار مسلم امیدوار دوسرے مقام پر رہے ہیں ضلع علی گڑھ کی ساتوں سیٹوں میں کھیر اور چھرا ہی ایسے حلقہ رہے ہیں جہاں سے آج تک کوئی مسلم امیدوار اسمبلی نہیں پہنچا ہے سب سے زیادہ بار شہر اسمبلی حلقہ سے ہی مسلم امیدوار کامیاب ہوئے ہیں یہی وجہ ہے کہ بی جے پی کو چھوڑ کر سبھی سیاسی پارٹیاں یہاں سے مسلم امیدوار کو ٹکٹ دیتی رہی ہیں۔ غور طلب ہے کہ 2017کے اسمبلی انتخاب میں شہر سیٹ پر بی جے پی کے سنجیو راجا نے سماج وادی پارٹی کے ظفر عالم کو 15ہزار ووٹوں سے ہرایا تھا ،جیت ہار کا یہ فرق دیگر6سیٹوں کے مقابلے میں سب سے کم تھا اس بار بھی شہر سیٹ سے سماج وادی پارٹی کے امیدوار ظفر عالم اور بی جے پی سے سنجیو راجا کی اہلیہ قسمت آزما رہے ہیں ،سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ2017کے بی جے پی امیدوار سنجیو راجا بی جے پی لہر سے جیت گئے تھے لیکن ان پر چل رہے مقدموں کی وجہ سے 2022کے موجودہ الیکشن میںبی جے پی نے ان کا ٹکٹ کاٹ کر ان کی اہلیہ کو ٹکٹ دے دیا ہے جس کہ وجہ سے غیر مسلم ووٹر س بی جے پی کے اس فیصلے سے ناراض تھے تو یہ اندازہ لگا یا جا رہا تھا کہ سماج وادی پارٹی کے ظفر عالم جو ہندو مسلم دونوں میں یکساں مقبول ہیں ان کی جیت یقینی ہے لیکن اس بار چونکہ شہر سیٹ پر کانگریس سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق طلبا یونین صدر سلمان امتیاز ہیں جو علی گڑھ شہر کے باشندے بھی ہیں اورسی اے اے اور این آرسی تحریک میں متحرک اور فعال تھے جس کی وجہ سے علی گڑھ کے مسلمانوں میں ان کی شہرت بھی ہے ایسے میں مسلم ووٹوں کی تقسیم کا فائدہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو ہو تا نظر آرہا ہے ۔
1