لڑکیوں کی شادی کی عمر میں اضافہ کا فیصلہ کر کے مودی حکومت تنقیدوں کی زد میں آچکی ہے۔ملک میں اکثریت اس فیصلے کے حق میں نہیں ہےاس طرح حکومت کا کم و بیش ہر فیصلہ تنازع کی زد میں آجاتا ہے۔ زرعی قوانین کا باب خداخدا کرکے بند ہوا ہی تھا کہ لیبر قوانین اور بینکوں کی نجکاری کے فیصلے تنقید کی زد پرآگئے۔ اس سے قبل کہ ان سے نمٹنے کی کوئی سبیل نکالی جاتی لڑکیوں کی شادی کی عمر میں اضافہ کا فیصلہ کرکے حکومت نے ایک نیا تنازع کھڑا کردیا ہے۔مودی کابینہ نے بدھ کو فیصلہ کیا ہے کہ لڑکیوں کی شادی کی عمر بھی لڑکوں کے برابر یعنی 21 سال ہونی چاہیے۔ کابینہ کی اس تجویز کے بعد اب حکومت لڑکیوں کی شادی کی عمر میں تبدیلی کیلئے موجودہ قوانین میں ترمیم کرے گی اور اگلے چند دنوں میں اس بابت بل بھی ایوان میں پیش کردیاجائے گا۔
گزشتہ سال 15 اگست کو وزیراعظم نریندر مودی نے اپنی تقریر میں اس کا ذکرکرتے ہوئے لڑکیوں کیلئے شادی کی عمر بڑھانے کا عندیہ ظاہر کیاتھا۔ بعدازاں خواتین اور بچوں کی بہبودکی وزارت نے اس سلسلے میں جیا جیٹلی کی صدارت میں 10 رکنی ٹاسک فورس تشکیل دے کر اس کے ذمہ یہ کام لگایا کہ زچگی کی عمر، زچگی کے دوران شرح اموات کو کم کرنے، غذائیت کو بہتر بنانے کی ضرورت سے متعلق تمام امور کاجائزہ لے اوران میں اصلاح کی تجاویز پیش کرے۔چھ سات مہینوں کے طویل غور و خوض اورمختلف طرح کے سروے و جائزے کے بعد اس کمیٹی نے اسی سال جنوری کے آغاز میں اپنی رپورٹ پی ایم او اور وزارت کو پیش کی تھی۔اس رپورٹ میں لڑکیوں کیلئے شادی کی عمر میں اضافہ کے ساتھ ساتھ خواتین کو بااختیار بنانے کیلئے کئی دیگر تجاویز بھی پیش کی گئی تھیں جن میں اسکول کالج کے نصاب میں جنسی تعلیم کو باقاعدہ طور پرشامل کرنے، پولی ٹیکنیک اداروں میں خواتین کی تربیت، ہنر مندی و دیگر پیشہ ورانہ تربیت دینے اور ان کے ذریعہ معاش کو بڑھاوا دینے جیسی سفارشات بھی شامل ہیں۔ لیکن مودی کابینہ نے ان میں سے صرف ایک شادی کی عمر 18 سے 21سال کرنے کی تجویز کو ہی منظوری دی ہے اوراس پر قانون سازی کا بھی ڈول ڈال رہی ہے۔
اس مجوزہ قانون کو آبادی پر کنٹرول کی کوشش کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے حکومت کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے خواتین کو بااختیار بنایاجائے گا۔لیکن ملک کی ایک قابل لحاظ تعداد کو حکومت کے اس فیصلہ سے اتفاق نہیں ہے۔ ان کاکہنا ہے کہ ہندوستان کے موجودہ سماجی منظر نامہ میں خواتین کی جو صورتحال ہے اس میں شادی کی عمر میں اضافہ سے نہ صرف ان کی مشکلات میں اضافہ ہوگا بلکہ والدین کی فکر و تشویش کا دورانیہ بھی بڑھ جائے گا۔
ہندوستان میں لڑکیوں کو عام طور پر ’ پرایادھن‘ سمجھاجاتا ہے اور ان کے بالغ ہونے کے بعد والدین کو جلد سے جلد ان کے ہاتھ پیلے کرنے کی فکر رہتی ہے۔ بلوغت کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی لڑکیاں جب گھروں سے باہر نکلتی ہیں تو والدین تشویش کے شکار رہتے ہیں، شادی کیلئے بلوغت کے بعدبھی مزید 3برسوں تک کی پابندی سے معاشرے میں نہ صرف بے راہ روی بڑھے گی بلکہ ایسے قانون کی وجہ سے آبادی کا ایک بڑا حصہ غیر قانونی طور پر شادی کرنے پربھی مجبو ر ہوجائے گا۔ ابھی لڑکیوں کی شادی کی عمر کم از کم18سال ہونے کے باوجود بھی پورے ملک میں کم عمری کی شادی میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔2019-20میں ہوئے نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کے مطابق 18سال سے بھی کم عمر میں شادی کرنے والی خواتین کاقومی اوسط 27فیصد ہے۔ایسی بہت سی ریاستیں ہیں جہاں یہ شرح قومی اوسط سے بھی زیادہ ہے۔مغربی بنگال میں 48.1، بہار میں 43.4اور جھارکھنڈ میں 36.1 فیصد لڑکیوں کی شادی 18 سال سے پہلے ہوجاتی ہے۔ 2015-16 میں یہ اوسط 31فیصد تھا یہ کمی قانون کی وجہ سے نہیں آئی ہے بلکہ لڑکیوں کی تعلیم اور ان کیلئے روزگار کے مواقع میں اضافہ کی وجہ سے آئی ہے۔
غور کا مقام تو یہ بھی ہے کہ ایک لڑکی جب18سال کی عمر میں اس شعور کو پہنچ جاتی ہے کہ وہ اپنے ووٹ سے حکومت کو منتخب کرے تو پھر وہ اپنی زندگی کے بارے میں فیصلہ کیوں نہیں کرسکتی؟بہتر تو یہ ہوگا کہ حکومت شادی کی عمر میں اضافہ کے بجائے لڑکیوں کی تعلیم اور ان کیلئے سہولیات میں اضافہ پر غور کرے اور معاشرے میںاس کیلئے بیداری مہم شروع کرے۔ اس کے برخلاف قانون کے ذریعہ اسے تھوپنے کی کوشش کی گئی تو معاشرے پر اس کا منفی اثر پڑے گا۔ایک صحت مند معاشرے کیلئے شادی بیاہ کی عمر میں اضافہ کے قانون سے کہیں زیادہ ضروری تعلیم و تربیت کابہتر انتظام اور لڑکوں کے ساتھ ساتھ لڑکیوں میں بھی احساس ذمہ داری پیدا کرکے انہیں خود انحصار بنانا ہے۔
تلنگانہ: ریاستی اسمبلی کے سات روزہ اجلاس 37.44 گھنٹے تک جاری رہا’ 8 بل منظور
شمش آباد میں ایئر انڈیا کی طیارہ کی ہنگامی لینڈ نگ
Recent controversy over temples and mosques: RSS chief Mohan Bhagwat’s statement welcomed by religious and political leaders
بنگلہ دیش: تبلیغی جماعت میں خانہ جنگی،خونریزی میں 4 ہلاک 50 زخمی
انڈیا اتحا اور این ڈی اے کے اراکین پارلیمنٹ کا ایک دوسرے کے خلاف احتجاج