ایک جرمن محقق کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق چین سنکیانگ میں ایغور مسلمانوں اور دیگر نسلی اقلیتوں کی آبادی منظم طریقے سے کم کر رہا ہے۔ آئندہ بیس برسوں میں مسلمانوں کی آبادی ایک تہائی کم ہو جانے کا خدشہ ہے۔
چین نے ایک طرف تواپنی آبادی میں اضافے کے لیے تین بچے پیدا کرنے کی اجازت دے دی ہے تو دوسری طرف ایغور مسلمانوں اور سنکیانگ کی دیگر نسلی اقلیتوں کی آبادی کو کم کرنے کے لیے منصوبہ بند طریقے سے اقدامات کررہا ہے اور اگلے دو عشروں کے دوران ان کی آبادی 26 لاکھ سے 45 لاکھ کے درمیان تک کم کرنا چاہتا ہے۔
خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق جرمن محقق آدریا ن سینز کی یہ رپورٹ ایسے وقت آئی ہے جب بعض مغربی ممالک کی طرف سے سنکیانگ میں چین کے اقدامات، جو ان کے مطابق نسل کشی کے مترادف ہیں، کی تفتیش کے مطالبات بڑھتے جارہے ہیں۔ بیجنگ ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔
آدریان نے یہ رپورٹ ان چینی دانشوروں اور عہدیداروں کی تحقیقی رپورٹوں کی بنیاد پر تیار کی ہے جو سنکیانگ میں آبادی کے کنٹرول کی پالیسیوں پر کام کرتے ہیں۔ آدریان کے مطابق سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ سن 2017 سے سن 2019 کے درمیان سنکیانگ میں 48.7 فیصد کم بچے پیدا ہوئے ہیں اور بیجنگ حکومت نے جو منصوبے تیار کیے ہیں ان کی وجہ سے اگلے دو عشروں میں ایغور مسلمانوں اور سنکیانگ صوبے میں دیگر نسلی اقلیتوں کے یہاں 26 لاکھ سے 45 لاکھ تک کم بچے پیدا ہوں گے۔
حقوق انسانی کے گروپوں، محققین اور بعض مقامی افراد کا کہنا ہے کہ بیجنگ حکومت نے جو نئی پالیسیاں نافذ کی ہیں ان میں ایغور مسلمانوں اور دیگر نسلی اقلیتوں کی آبادی کو محدود کرنا، مزدوروں کو دوسرے علاقوں میں منتقل کر دینا اور تقریباً دس لاکھ ایغور اور دیگر نسلی اقلیتوں کو تربیتی کیمپوں میں رکھنا شامل ہیں۔
چین کا طویل مدتی منصوبہ
آدریان نے روئٹر سے بات چیت کرتے ہوئے کہا”اس (تحقیق اور تجزیہ) سے ایغور آبادی کے متعلق چینی حکومت کے مقصد اور طویل مدتی منصوبے کا پتہ چلتا ہے۔”
گوکہ چین کی حکومت نے ایغور اور دیگرنسلی اقلیتوں کی آبادی کے تناسب کو کم کرنے کے حوالے سے کسی سرکاری ہدف یا منصوبے کو عام نہیں کیا ہے لیکن آبادی کے متعلق سرکاری اعداد و شمار، آبادی کے تناسب وغیرہ کے متعلق چینی ماہرین، دانشوروں اور عہدیداروں کے تجزیوں کی بنیاد پر جرمن محقق آدریان نے اندازہ لگا یا ہے کہ حکومتی پالیسی کی وجہ سے سنکیانگ میں اکثریتی ہان نسل کی موجودہ آبادی 8.4 فیصد سے بڑھ کر 25 فیصد ہو سکتی ہے۔
آدریان کہتے ہیں ”یہ اسی وقت ممکن ہے جب وہ ایسا کرتے رہیں جیسا کہ وہ اب تک کرتے آرہے ہیں یعنی ایغورمسلمانوں کی شرح پیدائش میں زبردست کمی کی جائے۔”
چین کی تردید
چین کا کہنا ہے کہ نسلی اقلیتوں کی شرح پیدائش میں گراوٹ کی وجہ خطے میں موجودہ پیدائش کوٹا کا مکمل نفاذ اور دیگر ترقیاتی اقدامات ہیں جن میں فی کس آمدنی میں اضافہ اور خاندانی منصوبہ بندی کی خدمات تک بڑے پیمانے پر لوگوں کی رسائی وغیرہ شامل ہیں۔
چین کی وزارت خارجہ نے روئٹر کو بھیجے گئے ایک جواب میں کہا”سنکیانگ میں ‘نسل کشی‘ کی بات یکسر بکواس ہے۔ یہ امریکا اور مغربی ملکوں میں چین مخالف طاقتوں کے دیرینہ مقاصد کا اظہار اور ‘سائنوفوبیا‘ کا شکار لوگوں کے پروپیگنڈے کا مظہر ہے۔”
چینی وزارت خارجہ نے آدریان کی رپورٹ کی ”گمراہ کن” قرار دیتے ہوئے مزید کہا کہ سن 2017 سے سن 2019 کے درمیان سنکیانگ میں شرح پیدائش کی کمی حقیقی صورت حال کی عکاسی نہیں کرتے ہیں اور ایغور اقلیتوں میں شرح پیدائش اکثریتی ہان آبادی سے اب بھی زیادہ ہے۔