بنگلہ دیش کی وزارت خارجہ نے اسرائیل کے لیے نرمی کا تاثر رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ پہلے کی طرح نئے الیکٹرانک پاسپورٹ پر بھی اسرائیل کا سفر ممنوع ہے بنگلہ دیش نے شہریوں کو نئے الیکٹرانک پاسپورٹ جاری کرنے شروع کیے ہیں، جن میں ماضی کے برعکس یہ عبارت شامل نہیں کہ: ”یہ پاسپورٹ اسرائیل کے علاوہ تمام ممالک کے لیے موزوں ہے۔‘‘اس تبدیلی سے ان افواہوں نے جنم لیا کہ کچھ عرب ملکوں کی طرح شاید بنگلہ دیش بھی اسرائیل کی طرف نرمی کی پالیسی اختیار کرنے جا رہا ہے۔
اسرائیل اہلکار کی طرف سے جلد بازی میں خیرمقدم
ان قیاس آرائیوں کو اس وقت مزید تقویت ملی جب ایک اسرائیلی اہلکار نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے اس خبر کو شیئر کیا۔ اسرائیلی وزارتِ خارجہ کے ایشیا پیسیفک کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل جیلاڈ کوہین نے ہفتے کو اپنی ایک ٹوئیٹ میں اس خبر کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ: ”میرا بنگلہ دیشی حکومت سے اب یہ کہنا ہے کہ وہ آگے بڑھے اور اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرے تاکہ دونوں ملکوں کے لوگ اس سے مستفید اور خوشحال ہو سکیں۔‘‘ تاہم اتوار کو ایک وضاحتی بیان میں بنگلہ دیش کی وزارت خارجہ نے کہا کہ پاسپورٹ میں عبارت تبدیل کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بنگلہ دیشی شہریوں کے لیے اسرائیل کے لیے سفری پابندی ہٹا دی گئی ہے۔پچھلے سال امریکی صدر ٹرمپ کی ثالثی میں چار مسلم ملکوں نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کیا، جن میں متحدہ عرب امارات، مراکش، سوڈان اور بحرین شامل ہیں۔ پاکستان کی طرح بنگلہ دیش ان ملکوں میں شامل ہے جو اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتے۔
اسرائیل پر بنگلہ دیش کا موقف
اپنے بیان میں بنگلہ دیشی حکومت نے مزید کہا کہ ای پاسپورٹ میں عبارت کی تبدیلی کی وجہ عالمی معیار کی دستاویز مہیا کرنا ہے اور اس کا مشرق وسطیٰ سے متعلق پالیسی میں کسی تبدیلی سے کوئی تعلق نہیں۔ حکام کے مطابق حکومت کے اسرائیل سے متعلق پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور بنگلہ دیشی پاسپورٹ پر سفر کرنے والوں کے لیے اسرائیل جانے پر پابندی بدستور قائم ہے۔
بنگلہ دیشی حکومت نے اس بیان میں مسجد الاقصیٰ اور غزہ میں عام شہریوں پر حالیہ اسرائیلی ”مظالم‘‘ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ وہ ”فلسطین ۔اسرائیل تنازع کے حل کے لیے دو ریاستی حل کے اپنے اصولی موقف پر قائم ہے، جس میں 1967 سے پہلے کی سرحدوں کا قیام اور مشرقی یروشلم کو فلسطین کا دارالحکومت تسلیم کرنا شامل ہے۔