فیصل کے کنبہ کے ایک فرد اکرام نے کہا کہ یہاں جزوی طور پر لاک ڈاؤن لگا ہے اور سبزی ضروری چیز ہے جسے فروخت کیا جا سکتا ہے، اس کے باوجود پولیس نے فیصل پر اتنا ظلم و ستم کیا کہ اس کی موت ہو گئی۔
اناؤ: اتر پردیش پولیس پر اکثر لوگوں بالخصوص اقلیتی طبقہ کے خلاف ظلم و ستم کرنے کے الزامات عائد ہوتے رہتے ہیں۔ تازہ معاملہ اناؤ ضلع میں پیش آیا ہے، جہاں فیصل نامی ایک نوجوان کو پولیس اہلکاورں نے اتنا پیٹا کہ اس کی جان چلی گئی۔ فیصل کا ‘جرم‘ محض اتنا تھا کہ وہ اپنے کنبہ کا پیٹ پالنے کے لئے لاک ڈاؤن نافذ ہونے کے باوجود سبزی بیچ رہا تھا! اس معاملہ کے دو ملزمان سپاہیوں اور ایک ہوم گارڈ کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ اے ایس پی ششی شیکھر کے مطابق لاک ڈاؤن کی عمل آوری کے تحت ایک نوجوان کو تھانہ میں لایا گیا تھا، جہاں اس کی طبیعت بگڑ گئی اور اسپتال لے جاتے وقت اس کی موت واقع ہو گئی۔
متوفی نوجوان فیصل (20 سال) اناؤ کے بھٹ پوری علاقہ میں رہائش پذیر تھا۔ جمعہ کے روز وہ نزدیکی قصبہ بانگر مئو میں سبزی فروخت کر رہا تھا۔ اس کے اہل خانہ کے مطابق دو سپاہی اور ایک ہوم گارڈ نے لاک ڈاؤن کے دوران سبزی بیچنے کی پاداش میں اس کی پٹائی کر دی۔ اس کے بعد پولیس اس کو تھانے لے گئی۔ اہل خانہ کا الزام ہے کہ فیصل کی وہاں لے جاکر بھی پٹائی کی گئی۔ اس کے بعد جب اس کی طبیعت بگڑ گئی تو اسے اسپتال لے جایا گیا، لیکن ڈاکٹروں نے اسے مردہ قرار دے دیا۔ اس کے بعد پولیس والے فیصل کی لاش کو اسپتال میں چھوڑ کر بھاگ گئے۔
فیصل کی موت کے بعد مشتعل لوگ سڑک پر اتر آئے اور مقامی پولیس کے خلاف نعرے بازی کرنے لگے۔ مظاہرین نے ہردوئی-اناؤ روڈ کو بھی جام کر دیا۔ اس دوران پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں اور 6 گھنٹے تک ہنگامہ چلتا رہا۔ اس کے بعد اے ایس پی ششی شیکھر نے بتایا کہ ہوم گارڈ کو برخاست کر دیا گیا ہے اور دونوں سپاہیوں کو معطل کر دیا گیا ہے۔ دیر رات گئے 11 بجے ملزم پولیس اہلکاروں کے خلاف مقدمہ بھی درج کر لیا گیا، اس کے بعد اہل خانہ پرسکون ہوئے۔
متوفی نوجوان فیصل کے چچا محمد معراج نے بتایا کہ فیصل بانگر مئو قصبہ میں سبزی فروخت کر رہا تھا، جہاں کوتوالی پولیس کے سپاہی وجے چودھری، سیماوت اور ہوم گارڈ ستیہ پرکاش نے سر بازار اسے تھپڑ مارا اور موٹر سائیکل پر بیٹھا کر تھانہ لے گئے، جہاں اسے بہت مارا پیٹا گیا۔ اس کے بعد طبیعت بگڑنے پر پولیس والے فیصل کو اسپتال لے گئے اور وہاں چھوڑ کر بھاگ گئے۔
فیصل کے کنبہ کے ایک فرد اکرام نے کہا کہ یہاں جزوی طور پر لاک ڈاؤن لگا ہے اور سبزی ضروری چیز ہے جسے فروخت کیا جا سکتا ہے، اس کے باوجود پولیس نے فیصل پر اتنا ظلم و ستم کیا کہ اس کی موت ہو گئی۔ اب پولیس کہہ رہی ہے کہ اس کی موت ہارٹ اٹیک سے ہوئی ہے! اکرام نے کہا کہ بازار میں فیصل اکیلا نہیں تھا جو سامان بیچ رہا تھا اور بھی لوگ ایسا کر رہے تھے، یہ پولیس والے قاتل ہیں اور انہیں وردی نہیں ملنی چاہیے۔
اناؤ میں فیصل کے اہل خانہ سے صوبہ کے سابق وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو نے فون پر بات کی اور کنبہ کو ہر ممکن امداد فراہم کرنے کا وعدہ کیا۔ اے ایس پی ششی شیکھر کے مطابق سبزی منڈی سے خبر آئی تھی کہ لاک ڈاؤن پر عمل نہیں ہو رہا ہے، جس کی عمل آوری کے لئے پولیس ٹیم وہاں پہنچی تھی۔ پولیس والے وہاں سے ایک نوجوان کو لے کر تھانہ میں آئے اور اس کی طبیعت خراب ہو گئی۔ کوتوالی کے سی سی ٹی وی کیمرے کی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ اچانک گر گیا۔
ادھر، سابق رکن اسمبلی ببلو خان کے مطابق اس معاملہ میں پولیس پوری طرح قصوروار نظر آ رہی ہے۔ ریاست کے وزیر اعلیٰ کو جواب دینا چاہیے کہ لاک ڈاؤن کے دوران لوگ کھانا کیسے کھائیں گے! سبزی بیچنا کوئی جرم نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نہ تو لوگوں کا علاج کر پا رہی ہے اور نہ غریبوں کو روٹی دے پا رہی ہے۔ ان پولیس اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے۔