موجودہ حالات میں مسلمان مذہب اور عقیدت کے نام پر جو عمل کر رہے ہیں اس کو کسی بھی شکل میں دانشمندی یا مذہبی نہیں کہا جا سکتا۔
ڈیڑھ سال سے پوری دنیا کورونا وبا سے پریشان ہے اور ابھی تک تمام جدوجہد اور ٹیکہ کی ایجاد کے باوجود لوگوں کا اس سے متاثر ہونا بھی جاری ہے اور یہ وبا لوگوں کی قیمتی جانیں بھی لے رہی ہے۔ حالات یقیناً بہت خراب ہیں۔ جن ممالک کا طبی نظام بہترین تھا وہاں بھی اس وبا نے قہر ڈھایا اور جہاں کے طبی نظام پر پہلے سے ہی سوالیہ نشان تھے وہاں تو اس وبا نے قیامت برپا کر دی۔
اس وبا نے پیسوں والوں کی، تعلقات والوں کی، صحت پر فخرکرنے والوں کی، بڑے بڑے سائندانوں کی اور یہاں تک کہ انتہائی مذہبی افراد کو ان کی حیثیت بتا دی۔ پیسوں والوں کو آکسیجن میسر نہیں ہو پا رہی، تعلقات والوں کو اسپتال میں بیڈ نہیں مل پا رہا، صحت مند شخص کی سانسیں پھول رہی ہیں، بڑے بڑے سائنسدانوں کے علم پر سوال کھڑے ہو رہے ہیں اور خوف کا یہ عالم ہے کہ ہر مذہب میں عبادت گاہوں سے دور رہنے اور آپس میں دوری بنائے رکھنے کے لئے زور دیا جا رہا ہے۔
ایسے میں جب سب کو اپنی اوقات اور حیثیت کا بخوبی اندازہ ہو گیا ہے اور سب اس بات پر متفق ہیں کہ ایک دوسرے سے دور رہنے اور چہرے پر ماسک لگانے سے ہی ہم دنیا میں اس وائرس کے کئی طرح کے گشت کرنے والے ویرئنٹ سے بچ سکتے ہیں۔ لیکن دنیا کی ایک بڑی آبادی اس پر ابھی بھی عمل نہیں کر رہی۔
دنیا کی بات کیا کرنی ہندوستان کے ایک چھوٹے سے طبقہ مسلمانوں کی ہی بات کر لیتے ہیں۔ مسلم اکثریتی آبادی میں رہنے والے ماسک لگانے کو اپنی بےعزتی تصور کر رہے ہیں۔ مسلمانوں کو اس بات کا بھی احساس نہیں ہے کہ ڈیڑھ سال سے غیر ممالک کا کوئی فرد عمرہ کرنے اللہ کے گھری یعنی خانہ کعبہ تک نہیں گیا، کیونکہ وہاں پابندی عائد ہے۔ ان کو سمجھ لینا چاہیے کہ جب خانہ کعبہ جانے پر پابندی عائد ہے تو مسلمانوں کی دیگر عبادت گاہوں کے تعلق سے تو پھر سوچنے کی ضرورت ہی نہیں۔
موجودہ حالات میں مسلمان مذہب اور عقیدت کے نام پر جو عمل کر رہے ہیں اس کو کسی بھی شکل میں دانشمندی یا مذہبی نہیں کہا جا سکتا۔ وہ اگر جمعتہ الوداع کے موقع پر حیدرآباد کی مکہ مسجد میں بڑی تعداد میں سماجی دوری پر عمل کیے بغیر نماز پڑھیں یا بڑی تعداد میں اپنے ہر دلعزیز معزز مذہبی شخصیت کی تدفین میں شرکت کریں، دونوں ہی صورتوں میں نہ تو وہ مذہب پر عمل کر رہے اور نہ ہی بزرگوں کی تعلیم پر۔ دراصل ان کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ موجودہ حالات میں سماجی دوری پر عمل کرنا اور چہرے پر ماسک پہننا پوری انسانیت کے لئے ضروری ہے اور اس پر عمل نہ کرنے سے نہ تو ان کو مذہبی ہونے کا سرٹیفیکیٹ مل جائے گا نہ ہی جننت میں کوئی اعلی مقام، ہاں یہ ضرور ہے کہ اگر ان کے اس عمل کی وجہ سے کوئی شخص اس وبائی مرض کا شکار ہو گیا اور اس کی موت واقع ہو گئی تو ان کے لئے کوئی معافی کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ سماجی اور شرعی روشنی پر ان احتیط پر عمل کرنے کے لئے ان سے بار بار کہا جا رہا ہے۔
ہم ماہ رمضان کے بالکل آخری حصہ میں داخل ہوچکے ہیں اور دو تین دن میں عید الفطر ہے۔ عید الفطر کے تعلق سے مذہبی شخصیات بار بار اس بات کو کہہ رہی ہیں کہ عید کی نماز مسلمان گھر پر ہی ادا کریں، مساجد اور عید گاہ میں نماز ادا نہ کریں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ نہ تو حکوت کو اور نہ ہی مذہبی شخصیات کو ایسی کسی اپیل یا درخواست کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ہر انسان موجودہ حالات سے بخوبی واقف ہے۔ انسان کو خود اتنا سمجھدار ہونا چاہیے کہ وہ یہ سمجھے کہ یہ غیر معمولی حالات ہیں اور ان حالات میں احتیاط ہی سب سے بہتر راستہ ہے۔
’قومی آواز‘ کی جانب سے آپ سب کو عید کی پیشگی مبارکباد پیش خدمت ہے اور آپ سے گزارش ہے کہ ان تمام لوگوں کی شفاء کے لئے گھر میں رہ کر دعا کریں جو اس وبائی وائرس سے متاثر ہیں یا جو اس وائرس کی وجہ سے دنیا فانی سے کوچ کر گئے ہیں ان کی مغفرت کے لئے دعا کریں۔ عید سادگی سے منائیں اور اپنے آس پاس غریب اور ضرورت مند افراد کی مدد کریں، بس دھیان رہے کہ آپ اس کو یقینی ضرور بنائیں کہ جس کی آ پ مدد کر رہے ہیں وہ ضرورت مند ہو پیشہ ور مانگنے والا نہ ہو۔
بشکریہ قومی آواز