جو بائیڈن کی انتظامیہ ہندوستا ن پر کن معاملوں کے لیے دباؤ ڈال سکتی ہے؟

امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کے ابتدائی پیغامات سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ انڈیا اور امریکہ کے تعلقات شاید مزید مضبوط ہوں گے لیکن کچھ ایسے حقائق بھی موجود ہیں جن کی وجہ سے دونوں ملکوں کے تعلقات کو ایک امتحان سے گزرنا پڑ سکتا ہے۔سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں دونوں ملک اپنے سفارتی اور سٹریٹیجک تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کی سمت کام کر رہے تھے۔ پاکستان اور چین کے متعلق تنازعے میں انڈیا کو مسلسل امریکہ کا ساتھ حاصل رہا۔ان معاملات پر انڈیا کو امریکہ کی حمایت کی امید ہے لیکن وزیراعظم نریندر مودی کی سربراہی میں انڈیا میں مذہبی آزادی اور اظہار رائے کی آزادی کے معاملے پر امریکہ کا مختلف رخ ہو سکتا ہے۔ تجارتی امور پر بھی دونوں ملکوں کے مابین اختلافات کا امکان ہے۔

مودی حکومت پر دباؤ

عام طور پر امریکہ ایک مضبوط انڈیا کو چین کے خلاف ’توازن‘ کے طور پر دیکھتا ہے۔ بائیڈن کے دور حکومت میں بھی اس میں تبدیلی مشکل نظر آتی ہے کیونکہ چین کے ساتھ امریکہ کے تعلقات مزید تلخ ہو گئے ہیں لیکن اس کے باوجود بائیڈن شائد ٹرمپ سے زیادہ انڈیا پر جمہوریت کا پابند ہونے کے لیے اصرار کریں گے۔

بائیڈن کی خارجہ پالیسی میں ایک اہم مقصد جمہوریت کو فروغ دینا ہے اور دنیا بھر میں سلامتی کو یقینی بنانا ہے۔ وہ اپنے دور حکومت کے پہلے سال میں ہی ایک عالمی سربراہی اجلاس کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں جو ’لبرل دنیا کے جذبے کو فروغ دینے‘ کے مقصد سے منعقد کیا جائے گا۔دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے ناطے انڈیا فطری طور پر اس تقریب کا ایک حصہ ہو گا لیکن مبینہ طور پر کچھ ناقدین ہندو اکثریت پسندی کے حکومتی ایجنڈے کو ملکی جمہوری روایات میں بگاڑ کے طور پر دیکھتے ہیں اور اس کے بارے میں فکر مند ہیں۔

انگریزی اخبار دی ٹیلی گراف کے ایک سیاسی تجزیہ کار عاصم علی کا کہنا ہے کہ ’کوئی بھی جمہوریت اتنی تیزی سے تنزلی کی طرف نہیں جا رہی جس تیزی سے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت جا رہی ہے۔‘

وہ لکھتے ہیں ’بائیڈن انتظامیہ کے پاس بہت سارے آپشن موجود ہیں جو انڈیا کو بغیر کسی سفارتی جھگڑے کے جمہوریت کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیں۔‘مودی کے کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ ان کی حکومت ملک کی جمہوری اور سیکولر بنیادوں کو مسلسل تباہ کر رہی ہے۔ وہ میڈیا اور عدالتی نظام میں موجود اپنے حامیوں کی وجہ سے ایسا کر پا رہے ہیں۔ سیاسی تجزیہ کار پرتاپ بھانو مہتا نے اسے ’عدالتی بربریت میں اترنے‘ سے تعبیر کیا ہے۔حکومت اور اس کے ناقدین کے مابین تکرار کا سب سے حالیہ معاملہ تین زرعی قوانین کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ حکمران بی جے پی کے حامی کچھ لیڈرز ان قوانین کے خلاف احتجاج کرنے والے کسانوں کو ’غدار‘ اور ’دہشت گرد‘ کہہ کر برانڈ کر رہے ہیں۔

حکمراں جماعت اپنی تنقید کو روکنے کے لیے اکثر ایسے طریقوں کا استعمال کرتی ہے۔

انڈیا میں امریکی سفارتخانے نے چار فروری کو ایک بیان میں کہا ہے کہ ’ہمیں یقین ہے کہ پرامن مظاہرے کسی بھی جمہوریت کی پہچان ہیں۔۔۔ ہم مختلف جماعتوں کے مابین کسی بھی طرح کے اختلافات کو بات چیت کے ذریعے حل کیے جانے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔‘

مسئلہ کشمیر پر انڈین رویے پر نظر

اگست 2019 میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی خود مختاری کے خاتمے کے بعد انڈین حکومت نے سکیورٹی سے متعلق سخت اقدامات کیے۔ حکومت نے ٹیلی مواصلات کے تمام ذرائع کو بند کردیا تھا اور پچھلے سال ہی انٹرنیٹ کو یہاں دوبارہ بحال کیا گیا ہے۔انڈین حکومت کے اس طرز عمل پر بائیڈن سمیت ڈیموکریٹک پارٹی کے متعدد رہنماؤں نے اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے لیکن انڈیا نے اسے مثبت انداز میں نہیں لیا۔
کشمیر کے بارے میں امریکی رکن پارلیمنٹ پرمیلا جیپال کے اعتراضات کے بعد وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر نے دسمبر سنہ 2019 میں امریکی اراکین پارلیمنٹ کے ساتھ ہونے والی ملاقات کو منسوخ کر دیا تھا۔پرمیلا جیپال اب بائیڈن انتظامیہ کی ایک اہم رکن ہیں۔ وہ کانگریس کے ترقی پسند گروپ(کاکس) کی صدر بھی ہیں۔ یہاں بہت بڑی تعداد میں ایسے ڈیموکریٹس ہیں جنھوں نے انسانی حقوق کی پامالیوں کے معاملے پر کھلے طور پر تنقید کی ہے۔

عاصم علی لکھتے ہیں: ’کسی کو بڑے پیمانے پر تنقید کی توقع نہیں۔ بائیڈن کو بہت لطیف انداز میں یا پھر سخت طریقے سے مودی کو اپنے زیر اثر لانا ہے تاکہ مودی رضاکارانہ طور پر اس کا نوٹس لیں۔‘یہ دیکھنا دلچسپ ہو گا کہ آگے کیا ہو گا، کیوںکہ امریکہ اکثر جمہوری اقدار کی نافرمانی پر چین اور روس کی مذمت کرتا ہے، تو کیا وہ انڈیا کے ساتھ بھی یہی طرز عمل اختیار کرے گا۔

کاروباری اختلافات

تجارت کے میدان میں بھی انڈیا اور امریکہ کے مابین اختلافات سامنے آ سکتے ہیں۔ گذشتہ چند دہائیوں سے ان دونوں ممالک کے مابین تجارت میں مستقل اضافہ ہوا ہے لیکن اس کے باوجود دانشورانہ املاک کے حقوق اور ورک ویزا وغیرہ جیسے کچھ حل طلب مسائل ابھی بھی موجود ہیں۔

معیشت کے معاملے میں مودی کے خود کفیل ہونے کا اعلان اس فہرست میں ایک اضافہ ہو گا۔
بہت سے لوگ مودی حکومت کی تحفظ پسندانہ پالیسی سے خوفزدہ ہیں۔ اس کے تحت حکومت کا زور مقامی طور پر پیدا کرنے اور اسے گھریلو سطح پر ہی استعمال کرنے پر ہے۔
اس سے غیر ملکی کمپنیوں کا انڈیا میں کاروبار کرنا مشکل ہو جائے گا اور بیرونی ممالک تک انڈین کاروبار کی رسائی پر دباؤ ہو گا۔جنوری میں ڈیلی منٹ نے انڈیا میں سابق امریکی سفیر کینتھ جسٹر کے حوالے سے لکھا کہ ’اس سے عالمی سطح پر انڈیا کی صلاحیت کو ایک زنجیر سے جوڑنے کا عمل متاثر ہو گا، اس کی وجہ انڈین صارفین کو مہنگائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘دونوں ممالک کے مابین تجارتی معاہدہ اسی وجہ سے رکا ہوا ہے کہ انڈیا امریکی کمپنیوں کے لیے بڑے پیمانے پر اپنا بازار کھولنے کے لئے تیار نہیں۔

دوسری طرف بائیڈن نے کہا ہے کہ جب تک وہ اپنے ملک میں معاملات درست نہیں کر لیتے اس وقت تک وہ کوئی بین الاقوامی معاہدہ نہیں کریں گے۔ ماہرین کا یہ بھی خیال ہے کہ بائیڈن انتظامیہ کے ساتھ کوئی معاہدہ اتنا آسان نہیں ہو گا۔

خارجہ امور کی ماہر اپرنا پانڈے کا کہنا ہے کہ ’کاروباری معاہدوں سے سفارتی تعلقات متاثر ہوں گے۔‘

اپرنا پانڈے نیوز ویب سائٹ دی پرنٹ میں لکھتی ہیں: ’سرمایہ کاری کے معاملے میں امریکی کمپنیوں کو ترجیح دینے کی انڈین خواہش اور امریکہ کی جانب سے انڈیا میں سرمایہ کاری کے عزم کی حوصلہ افزائی سے چین کے چیلنجز سے نمٹنے میں اںڈیا کی صلاحیت میں اضافہ ہو سکتا ہے۔‘

چین کے ساتھ مقابلہ دونوں ممالک کے مابین مشترکہ عنصر

انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کے معاملے پر امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے گذشتہ ہفتے چینی وزیر خارجہ یانگ جی چی کو ایک سفارتی بیان دیا تھا اور اس کے ساتھ ہی انڈیا کی حمایت بھی کی تھی۔

اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نئی امریکی حکومت چین کے حوالے سے ٹرمپ کی سخت پالیسیوں پر عمل پیرا ہونے جا رہی ہے اور اس میں کوئی فرق آنے والا نہیں۔انگریزی اخبار دکن ہیرالڈ میں ایس رگوتھم لکھتے ہیں کہ اگر مودی انڈیا کی جمہوریت میں ہونے والے زوال کو روک سکتے ہیں تو ان کے لیے یہ ایک اچھا موقع ہو سکتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں