دونوں رہنماؤں نے ‘قانون پر مبنی بین الاقوامی نظام‘ کے حوالے سے عزم کا اظہار کیا اور بحر ہند اور بحرالکاہل کے خطے اور اس سے بھی آگے امن اور سکیورٹی کو مستحکم کرنے کے لیے ‘اسٹریٹیجک پارٹنرشپ کو مضبوط‘ بنانے پر زور دیا۔ امریکی صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سے یہ جو بائیڈن اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے درمیان ہونے والی اولین بات چیت تھی۔ اس میں دونوں رہنماؤں نے ‘قانون پر مبنی بین الاقوامی نظام‘ کے حوالے سے اپنے مشترکہ عزم کا اظہار کیا اور اس بات پر بھی زور دیا کہ بحر ہند اور بحرالکاہل کے خطے اور اس سے بھی آگے کے علاقوں میں امن اور سکیورٹی کو مستحکم کرنے کے لیے ‘اسٹریٹیجک پارٹنرشپ کو مضبوط‘ بنایا جانا چاہیے۔
پیر آٹھ فروری کی رات ٹیلی فون پر ہونے والی اس گفتگو کے بعد بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں لکھا، ”صدر جو بائیڈن اور میں قانون پر مبنی ایک بین الاقوامی نظام کے حوالے سے پرعزم ہیں۔ ہم بحر ہند اور بحرالکاہل کے خطے میں امن و سلامتی کے لیے اپنی اسٹریٹیجک پارٹنرشپ کو مستحکم بنانے کے خواہش مند بھی ہیں۔”
دوسری طرف وائٹ ہاؤس کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں بتایا گیا ہے کہ دونوں لیڈروں نے اس با ت سے اتفاق کیا کہ وہ ایک آزاد اور کھلے انڈو پیسیفک تعاون کو فروغ دیں گے، جس میں سمندری پانیوں میں آزادنہ نقل و حرکت، علاقائی سالمیت اور ایک مضبوط چار ملکی (کواڈ) اتحاد شامل ہیں۔
نظریں چین پر
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگرچہ ان دونوں رہنماؤں نے اپنی بات چیت کے دوران چین کا نام نا لیا، تاہم قانون پر مبنی بین الاقوامی نظام اور انڈو پیسیفک خطے میں امن و سلامتی کا ذکر بحیرہ جنوبی چین سے لے کر چینی بھارتی سرحد تک بیجنگ کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کے حوالے سے کیا گیا۔بائیڈن اور مودی کے مابین یہ بات چیت ایک ایسے وقت پر ہوئی ہے جب جاپانی میڈیا کے مطابق امریکا ایک ویڈیو کانفرنس کے ذریعے عنقریب ہی کواڈ سمٹ کا انعقاد کرنے والا ہے۔بحر ہند اور بحرالکاہل کے علاقوں میں چین کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کے مدنظر امریکا، بھارت، آسٹریلیا اور جاپان نے کواڈ (QUAD) کے نام سے ایک گروپ بنایا ہے۔اس گروپ کے ممالک کے سربراہی اجلاس اور ان کی افواج کی مشترکہ جنگی مشقیں اکثر ہوتے رہتے ہیں۔
بھارت اور امریکا کے درمیان گزشتہ کئی عشروں سے دوستانہ تعلقات ہیں لیکن جنوبی ایشیا میں چین کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں پر باہمی تشویش اور اسٹریٹیجک پارٹنرشپ کی خواہش کی وجہ سے حالیہ برسوں میں دونوں ملکوں کے تعلقات زیادہ گہرے ہوئے ہیں۔ گزشتہ برس فروری میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت کا دورہ کیا تھا۔ سن 2019 میں دونوں ملکو ں کے مابین 146ارب ڈالر کی دوطرفہ تجارت ہوئی تھی۔
نئی امریکی انتظامیہ کے اقتدار میں آنے کے بعد اگرچہ یہ گفتگو مودی اور صدر بائیڈن کے درمیان پہلی بات چیت تھی تاہم اس سے قبل دونوں ممالک کے سینیئر وزراء کے مابین بات چیت ہو چکی ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر اپنے امریکی ہم منصب انتھونی بلنکن سے، بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ امریکی وزیر دفاع لائڈ آسٹن سے اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال اپنے امریکی ہم منصب جیک سلیون سے با ت چیت کر چکے ہیں۔
مودی اور بائیڈن کے درمیان گزشتہ گفتگو 17نومبر کو ہوئی تھی، جب یہ تقریباً طے ہو چکا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ انتخاب ہار گئے تھے اور بائیڈن ہی کو نیا امریکی صدر بننا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ مودی اور سابق امریکی صدر ٹرمپ کے درمیان کافی گہری دوستی ہے، حتیٰ کہ بھارتی وزیر اعظم نے امریکا جا کر بھارتی نژاد امریکیوں سے ٹرمپ کو ووٹ دینے کے لیے بھی کہا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ مودی اور سابق امریکی صدر ٹرمپ کے درمیان کافی گہری دوستی ہے-
جمہوری اداروں کا دفاع
امریکی محکمہ خارجہ کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر بائیڈن نے دنیا بھر میں جمہوری اداروں کے دفاع کی اپنی خواہش کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ جمہوری اقدار سے جڑا ہونا امریکا اور بھارت کے باہمی تعلقات کی بنیاد ہے۔بھارت میں بعض تجزیہ کار امریکی صدر کے اس بیان کو متنازعہ زرعی قوانین کے خلاف جاری بھارتی کسانوں کی تحریک سے بھی جوڑ کر دیکھ رہے ہیں۔ مودی حکومت نے کسانوں کے مظاہروں پر قابو پانے کے لیے کئی علاقوں میں انٹرنیٹ سمیت مواصلاتی ذرائع پر پابندی لگا دی تھی۔امریکی وزارت خارجہ نے گزشتہ ہفتے ایک بیان میں کہا تھا کہ انٹرنیٹ سمیت اطلاعات کے دیگر وسائل تک بلا روک ٹوک رسائی اور پرامن احتجاج جمہوریت کی شناخت ہیں۔صدر بائیڈن اور وزیر اعظم مودی نے میانمار کے سیاسی حالات، ماحولیاتی تبدیلیوں، کورونا وائرس کی وجہ سے متاثرہ عالمی اقتصادی صورت حال اور دہشت گردی کے موضوع پر بھی تبادلہ خیال کیا۔