امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ یمنی حوثی ملیشیا کو دہشت گرد بلیک لسٹ سے خارج کر دے گی۔ یہ بات جمعہ پانچ فروری کو بتائی گئی۔
موجودہ امریکی صدر کی انتظامیہ کا یمنی حوثی ملیشیا کو دہشت گرد ‘بلیک لسٹ‘ سے خارج کرنا بھی ٹرمپ دور کی پالیسیوں میں تبدیلی کا تسلسل ہے۔ حوثی ملیشیا کو بلیک لسٹ قرار دینے کا فیصلہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی مدتِ صدارت کے آخری ایام میں کیا تھا۔ محض تین ہفتوں کے بعد ہی اس میں تبدیلی کا امکان سامنے آ گیا ہے۔امریکا نے یمن پر سعودی حملوں کی حمایت روک دی
حوثی ملیشیا کے بارے میں فیصلے کی وجہ
امریکی وزارتِ خارجہ کے ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ حوثی ملیشیا کے حوالے سے فیصلہ یمن میں ابتر انسانی صورت حال کے تناظر میں لیا جا رہا ہے اور ویسے بھی سابقہ انتظامیہ نے اپنی مدت کے اختتام کی آخری گھڑیوں میں ایسا قدم اٹھایا تھا۔
رواں برس انیس جنوری کو سابق امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے حوثی ملیشیا کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا
اہلکار کے مطابق اقوام متحدہ اور انسانی امداد کی تنظیمیں واضح کر چکی ہیں کہ ٹرمپ انتطامیہ کے فیصلے نے دنیا کے شدید ترین انسانی المیے کی صورت حال کو مزید ابتر کر دیا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ ٹرمپ انتطامیہ کو حوثی ملیشیا کو دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرنے پر بین الاقوامی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔امریکا حوثی باغیوں کو دہشتگردی کی فہرست سے ہٹائے: عالمی تنظیمیں
یمنی تنازعہ اور ٹرمپ انتطامیہ
یہ امر اہم ہے کہ عمومی طور پر یمنی تنازعے کو شیعہ ایران اور اس کی سنی خلیجی ریاستوں کے درمیان ‘پراکسی‘ جنگ قرار دیی جاتی ہے۔ رواں برس انیس جنوری کو سابق امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے حوثی ملیشیا کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا۔
یہ حکومتی اعلان موجودہ صدر جو بائیڈن کے حلف اٹھانے سے ایک روز قبل کیا گیا۔ اس اعلان میں چند امدادی گروپوں کو استثنیٰ بھی دیا گیا لیکن اقوام متحدہ اور دوسرے کئی امدادی گروپوں نے اس فیصلے کی منسوخی کا مطالبہ کر رکھا تھا۔
یمن کے صدر منصور ہادی اپنے اتحادی سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ساتھ ہاتھ میں ہاتھ ڈالے ہوئے
اقوام متحدہ کی کوششیں اور امریکا
سن 2015 میں شروع ہونے والے یمنی تنزعے کو حل کرنے کے لیے اقوام متحدہ مسلسل مصالحتی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے اور فریقین کو مذاکرات کی میز پر بھی بٹھایا گیا لیکن بات آگے نہیں بڑھی۔ سعودی عرب صدر منصور ہادی کی حمایت میں ہے تو ایرانی حکومت حوثی ملیشیا کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔حوثیوں سے دہشت گرد کا لیبل ہٹالیں، امریکا سے اقوام متحدہ کی اپیل
یمن میں امریکی فوج کشی کی اولین منظوری صدر باراک اوباما کے دور میں دی گئی تھی اور اس مین القاعدہ کے جنگجوؤں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ عرب دنیا کے اس ملک کو شدید اقتصادی بد حالی کے ساتھ ساتھ کورونا وبا کا بھی سامنا ہے۔ اقوام، متحدہ نے یمنی صورت حال کو دنیا کا سب سے بڑا انسانی بحران قرار دیا ہے اور وہاں کی اسی فیصد آبادی امداد کی منتظر ہے۔
جو بائیڈن انتظامیہ کا فیصلہ اور ردعمل
حوثی ملیشیا کو دہشت گرد تنظیم سے خارج کرنے کے امریکی فیصلے کا بھرپور خیرمقدم سامنے آیا ہے۔ اقوام متحدہ کی ترجمان اسٹیفنی دویارچ کا کہنا ہے کہ امریکی انتظامیہ کا حالیہ فیصلہ لاکھوں یمنی باشندوں کو سکون و راحت کا باعث بنے گا کیونکہ ان کی بنیادی ضروریات کا انحصار انسانی امداد پر ہے۔
امریکی وزارتِ خارجہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ حوثی ملیشیا کو بلیک لسٹ سے خارج کرنے سے ایسا تاثر مت لیا جائے کہ امریکا نے اس کے غیر ذمہ دارانہ رویے سے چشم پوشی کر لی ہے۔