وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ وہ چھ برس سے جاری جنگ کے پر امن اختتام کے لیے کوشش کرے گا۔ یمن میں اب تک ایک لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور یہ خونریز تنازعہ مسلسل ایک بہت بڑے انسانی بحران کی وجہ بنا ہوا ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے جمعرات کے روز کہا کہ امریکا یمن میں سعودی عرب کی قیادت میں جاری فوجی کارروائیوں کے لیے اپنی حمایت ختم کر رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ چھ بر س سے جاری یہ جنگ “ختم ہونی چاہیے” تاہم انہوں نے اس با ت پر بھی زور دیا کہ امریکا اپنے دیرینہ حلیف سعودی عرب کی حمایت کرتا رہے گا۔
امریکی محکمہ خارجہ میں سفارت کاروں سے خطاب کرتے ہوئے جو بائیڈن نے کہا، ”یمن کی جنگ نے ایک انسانی اور اسٹریٹیجک تباہی کو جنم دیا اور ہم یمن میں جنگ کے خاتمے کے لیے اپنی سفارت کاری کو تیز کر رہے ہیں۔” انہوں نے کہا، ”اس جنگ کو ختم ہونا چاہیے اور اس جنگ کے حوالے سے اپنے عزائم واضح کرنے کے لیے ہم یمن میں ہر قسم کا امریکی تعاون ختم کر رہے ہیں، جن میں اسلحے کی فروخت بھی شامل ہے۔“
جو بائیڈن کا کہنا تھا، ”میں نے اپنی مشرق وسطیٰ کی ٹیم سے کہا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی قیادت میں جنگ بند کروانے کی کوششوں میں ہماری مدد کرے۔ دیرپا امن مذاکرات بحال کیے جائیں۔ یہ امر یقینی بنایا جائے گا کہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر دی جانے والی امداد یمنی عوام تک پہنچے، جو تکلیف اور ناقابل برداشت تباہی سے گزر رہے ہیں۔”
بائیڈن کی یہ نئی پالیسی ان کے دو پیش رو صدور کی پالیسیوں سے یکسر مختلف ہے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ امریکی خارجہ پالیسی میں سفارت کاری آ چکی ہے اور ‘ہم ایک بار پھر دنیا کے ساتھ رابطے بحال کریں گے‘ تا کہ آج کے اور مستقبل کے چیلنجز کا مقابلہ کر سکیں۔
تیل کی پیداوار میں سعودی عرب اور امریکا مدِ مقابل
ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسی سے مزید انحراف کا اشارہ دیتے ہوئے صدر بائیڈن نے کہا کہ انہوں نے روسی صدر ولادیمیر پوٹن پر واضح کر دیا ہے کہ واشنگٹن اب روس سے مختلف انداز میں نمٹے گا۔ ”ہم روس کے خلاف کارروائی کرنے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں کریں گے۔ ہم اپنے اہم مفادات اور عوام کی حفاظت کریں گے۔”
سعودی حملوں کے خلاف مغرب کے موقف میں سختی
یمن میں جاری جنگ کے حوالے سے موقف میں کسی ممکنہ تبدیلی کا اشارہ اس سے قبل بائیڈن کے سلامتی مشیر جیک سلیون نے دیا تھا۔ تاہم سلیون نے یہ بھی کہا تھا کہ یمن میں جنگ کے لیے امریکی حمایت ختم ہونے سے عرب خطے میں سرگرم القاعدہ کے خلاف امریکی کوششیں متاثر نہیں ہوں گی۔
سن 2014 میں شروع ہونے والی اس جنگ میں اب تک ایک لاکھ سے زائد انسان ہلاک ہو چکے ہیں۔
اس جنگ کی وجہ سے لاکھو ں یمنی باشندے فاقہ کشی کا شکار ہیں۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ یمن میں دنیا کا بد ترین انسانی بحران پایا جاتا ہے، جہاں 80 فیصد آبادی یا تقریباﹰ دو کروڑ چالیس لاکھ شہریوں کو امداد یا تحفظ کی ضرورت ہے۔
ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے حملوں کی وجہ سے ابتدا میں یمنی حکومت پسپائی اختیار کرنے لگی تھی لیکن سعودی عرب اور آٹھ دیگر عرب ملکوں نے امریکا، فرانس اور برطانیہ کی مدد سے حوثیوں کے خلاف فضائی حملے کر کے ان کی پیش قدمی روک دی تھی۔
بہت سے مغربی ممالک ان حملوں پر نکتہ چینی کرتے رہے ہیں کیونکہ ان فوجی کارروائیوں کا کوئی دیرپا نتیجہ نہیں نکلا۔ جرمنی سمیت بعض ممالک اور بائیڈن کے اقتدار سنبھالنے کے بعد امریکا نے بھی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو ہتھیاروں کی فروخت پرعارضی پابندیاں عائد کر دی ہیں۔
بائیڈن انتظامیہ نے یمن میں جنگ کو پرامن طور پر ختم کرانے کے لیے ایک خصوصی ایلچی مقرر کرنے کا بھی اعلان کیا۔ مشرق وسطیٰ کے امور کے ماہر اورتجربہ کار سفارت کار ٹم لنڈرکنگ کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے۔
حوثیوں کے حوالے سے فیصلہ زیر غور
صدر جو بائیڈن حوثیوں کے متعلق ٹرمپ انتظامیہ کے ایک اور اہم فیصلے پر نظر ثانی کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ کی انتظامیہ میں وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے گزشتہ ماہ اعلان کیا تھا کہ حوثی باغیوں کا گروپ ایک ‘دہشت گرد تنظیم‘ ہے۔
بین الاقوامی امدادی تنظیموں نے ٹرمپ انتظامیہ کو متنبہ کیا تھا کہ اس فیصلے سے یمن میں امدادی سرگرمیاں متاثر ہو سکتی ہیں، جہاں لاکھوں شہریوں کو اشیائے خوراک اور ادویات کی اشد ضرورت ہے۔
بائیڈن انتظامیہ نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ وہ حوثی باغیوں کے ساتھ لین دین پر عائد بعض پابندیوں کو ختم کر دے گی۔ لیکن پابندیوں میں نرمی کی مدت 26 فروری کو پوری ہو جائے گی۔