حقیقت یہ ہے کہ مذہبی رہنماؤں کی طرح ہمارے سیاسی رہنما بھی دور اندیشی سے کام نہیں لے رہے بلکہ غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔سماجوادی پارٹی کے بزرگ رہنما اور سمبھل لوک سبھاکے منتخب رکن شفیق الرحمن برق نےعید الضحی کے تعلق سے جو بیان دیا ہے اس کو انہیں بیانات سے تعبیر کیا جاسکتا ہے جیسے رام دیو یا دیگرمذہبی رہنما دیتے رہتے ہیں، جن کا عقل اور منطق سے دور دور کا کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے۔ برق صاحب نے انتظامیہ سے ملاقات کرکے درخواست کی تھی کہ عید الضحی کے لئےرہنما ہدایات جاری کیے جائیں، جانوروں کی خرید و فروخت کے لئے بازار لگانے کی اجازت دی جائے اور عید گاہ میں نماز کے لئے اجازت دی جائے۔
انتظامیہ سے ملاقات کرنا اور اپنے مطالبات رکھنا ہر فرد کا حق ہے اور برق صاحب تو لوک سبھا کے منتخب رکن ہیں، اس لئے ان کی تو ذمہ داری زیادہ ہے، لیکن اپنی اس ملاقات میں اپنے مطالبات کے حق میں جو بات انہوں نے کہی، اس نے بزرگ رہنما کی بصیرت پر سوال کھڑے کر دیئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق انہوں نے کہا کہ عید گاہوں کو نماز کے لئے کھول دینا چاہیے تاکہ لوگ کورونا وائرس کوختم کرنے کے لئے دعا کر سکیں۔ اب ان سے کوئی پوچھے کہ سعودی حکومت نے حج کے لئے باہری لوگوں کو اجازت کیوں نہیں دی اور اتنے دنوں سے لوگ عمرہ کی سعادت سے کیوں محروم ہیں، عید الفطر کی نماز انہوں نے گھروں پر کیوں ادا کی۔
شفیق الرحمن برق نے معصوم مسلمانوں میں اپنی مقبولیت بڑھانے کے لئے ایسا بیان دیا اور سیاست داں ہونے کی وجہ سے ان کوعلم تھا کہ سخت گیر غیر مسلم افراد اور تنظیموں کی جانب سے ان کے اس بیان کے خلاف رد عمل ضرور آئے گا، کیونکہ ایسے رد عمل ان کی سیاست کے لئے مفید اور کارگر ہو سکتے ہیں، لیکن مسلم عوام کے لئے نہیں۔ بی جے پی کے رکن اسمبلی سنگیت سوم نے برق صاحب کے اس بیان پر رد عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ عائد پابندیوں پر عمل کرنا ہوگا نہیں تو جیل جانا ہوگا۔ اس موقع پر عید الضحی پر ہونے والی قربانی پر بھی کئی جانب سے سوال اٹھائے گئے۔
اس سے قبل برق صاحب یہ بھی بیان دے چکے ہیں کہ ’’کورونا وائرس کا ابھی تک کوئی علاج نہیں ملا ہے جس کا مطلب ہے کہ کورونا بیماری نہیں ہے بلکہ اللہ کی جانب سے ہمارے گناہوں کی سزا ہے۔‘‘ اس حقیقت سے پوری دنیا واقف ہے کہ اس وبا کو پھیلنے سے روکنے کے لئے سماجی دوری انتہائی لازمی ہے اور اسی وجہ سے زیادہ تر ممالک نے لاک ڈاؤن کا نفاذ کیا۔ جبکہ اس بات کا سب کو علم ہے کہ لاک ڈاؤن سے معیشت تباہ ہو رہی ہے مگر انسانی زندگی معیشت سے زیادہ اہم ہے۔ شفیق الرحمن برق کو بھی بجائے اس سارے معاملہ کو مسلمانوں کے لئے جذباتی بنانے کے، ان کو اپنے ووٹروں کو یہ سمجھانا چاہیے کہ وبا کے اس دور میں سماجی دوری ضروری ہے اور اس کے لئے انہیں سعودی عرب کی مثال پیش کرنی چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ مذہبی رہنماؤں کی طرح ہمارے سیاسی رہنما بھی دور اندیشی سے کام نہیں لے رہے بلکہ غیرذمہ داری کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔