نئی دہلی ۔ لداخ کے حساس خطہ میں 5 ہفتے سے جاری سرحدی تنازعہ نے شدید کشیدگی پیدا ہوگئی جب چینی دستوں نے مشرقی لداخ کی گلوان وادی میں پیر کی رات سخت جھڑپ کے دوران ایک انڈین آرمی کرنل اور دو سپاہیوں کے بشمول کم از کم 20فوجی ہلاک کردیئے۔ یہ گزشتہ 45 سال میں اتنے جانی نقصان والا اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے۔ آرمی نے کہاکہ ہندوستان پرتشدد جھڑپ کے دوران ایک آفیسر اور دو سپاہیوں کے محروم ہوا جبکہ چین کی طرف بھی جانی نقصان ہوا ہے۔ چین کو کس حد تک جانی نقصان ہوا وہ فوری واضح نہیں ہوسکا۔ دریں اثناء حکومت اور ملٹری انتظامیہ کے کئی ذرائع نے نیوز ایجنسی پی ٹی آئی کو بتایا کہ انڈین آرمی کو جانی نقصان 10 سے کہیں زیادہ ہوا ہے۔ جن ہلاکتوں کی شناخت ہوئی وہ کرنل سنتوش بابو کمانڈنگ آفیسر، 16 بہار ریجمنٹ اور دو سپاہی کے پلانی اور اوجھا ہیں۔ وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے وزیراعظم نریندر مودی کو کل رات کی جھڑپ کے ساتھ ساتھ مشرقی لداخ کی مجموعی صورتحال کے بارے میں واقف کرایا۔ اِس سے قبل راجناتھ نے وزیر اُمور خارجہ ایس جئے شنکر، چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل بپن راوت اور تینوں خدمات کے سربراہان کے ساتھ اعلیٰ سطح کی میٹنگ منعقد کی۔ فوجی سربراہ جنرل ایم ایم نروانے کا مشرقی لداخ کے واقعہ کے تناظر میں پٹھان کوٹ کو طے شدہ منسوخ کردیا گیا۔ گزشتہ 5 ہفتوں میں نہ صرف لداخ بلکہ آس پاس کے علاقوں کے تعلق سے نیپال کے ساتھ بھی کشیدگی بڑھتی رہی لیکن ہندوستانی قیادت نے ظاہر طور پر معقول توجہ نہیں دی۔ اس کے نتیجہ میں صدر ژی جن پنگ زیرقیادت چین کو اپنے مقاصد کی تکمیل کا موقع مل گیا اور وہ ہندوستان کے بعض دیگر حصوں کے علاوہ لداخ میں بھی اندرونی علاقے تک گھسنے میں کامیاب ہوگیا۔ اِن تمام دنوں میں صرف وزیر دفاع راجناتھ کا بیان سامنے آیا کہ نیپال اور چین کے ساتھ سرحدی تنازعے بات چیت کے ذریعہ حل کرلئے جائیں گے۔ وزیراعظم مودی جو یو پی اے حکومت کے دور میں چین پر شدید تنقید کرتے ہوئے مرکزی حکومت کو چیلنج کیا کرتے تھے کہ چینیوں کو لال آنکھ دکھانا ضروری ہے۔ گزشتہ سال جنرل الیکشن سے قبل پلوامہ حملے کے بعد مودی حکومت نے پاکستان مقبوضہ کشمیر میں سرجیکل اسٹرائیک کرتے ہوئے دہشت گردوں کے ٹھکانے اور کئی انتہا پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ تاہم نیپال جیسے چھوٹے ملک اور چین جسے مودی حکومت گزشتہ 6 سال کے دوران اپنا دوست قرار دیتی آئی ہے، اِن دونوں کے خلاف حکومت ہند کا کمزور پالیسی موقف رہا۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج انڈین آرمی کو بھاری جانی نقصان اُٹھانا پڑا جس کی گزشتہ کئی دہوں میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ ایک سینئر ملٹری آفیسر کے مطابق چینی آرمی کے ساتھ 1975 ء کے بعد سے یہ ایسی پرتشدد جھڑپ ہے جس میں ہندوستانی فوج کو اِس قدر بھاری جانی نقصان اُٹھانا پڑا ہے۔ تب اروناچل پردیش کے تولونگ لا میں گھات لگاکر حملہ کیا گیا تھا جس میں 4 ہندوستانی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔ ملٹری ذرائع نے کہاکہ دونوں فوجوں نے جھڑپ کے مقام پر میجر جنرل سطح پر بات چیت کی ہے۔ آرمی نے ایک مختصر بیان میں کہاکہ وادیٔ گلوان میں کشیدگی کو گھٹانے کا عمل جاری ہے۔ دونوں طرف کے سینئر ملٹری عہدیدار صورتحال کو معمول پر لانے کی کوشش کررہے ہیں۔ اِس دوران وزارت اُمور خارجہ نے کہاکہ پرتشدد ٹکراؤ چین کی طرف سے خطہ میں موجودہ موقف کو یکطرفہ طور پر تبدیل کرلینے کی کوشش کا نتیجہ ہے۔ وزارت نے کہاکہ دونوں طرف جانی نقصان ہوا جسے ٹالا جاسکتا ہے بشرطیکہ چین کی طرف سے اعلیٰ سطح پر اتفاق رائے کو قبول کرلیا جاتا۔ ترجمان وزارت انوراگ سریواستو نے کہاکہ سرحد کے انتظام کے معاملہ میں اپنے ذمہ دارانہ طریقہ کار کے مطابق ہندوستان کا موقف واضح ہے کہ اِس کی تمام تر سرگرمیاں ہمیشہ ایل اے سی (حقیقی خط قبضہ) کے اندرون رہی ہیں۔ ہم چین کی طرف سے بھی ایسے ہی عمل کی توقع رکھتے ہیں۔ ذرائع نے کہاکہ جھڑپ کے دوران کوئی آتشیں اسلحہ استعمال نہیں کئے گئے۔ چین نے اِس واقعہ پر اپنے ردعمل میں الزام عائد کیاکہ ہندوستانی دستے 15 جون کو 2 مرتبہ حقیقی سرحد کو پار کرگئے جس کا مقصد غیر قانونی سرگرمیاں ہے اور اُنھوں نے اشتعال دلایا بلکہ چینی فوجیوں پر حملہ بھی کیا جو شدید جھڑپ کا موجب بنا۔ بتایا جاتا ہے کہ چینی آرمی پرسونل کی قابل لحاظ تعداد کئی علاقوں بشمول پانگانگسو میں حقیقی سرحد کی ہندوستانی جانب گھس چکے ہیں۔ انڈین آرمی شدت سے چینی دراندازیوں پر اعتراض کرتی آئی ہے اور اُس کا مطالبہ رہا ہے کہ علاقہ میں امن اور بھائی چارہ کو بحال کیا جائے۔
تلنگانہ: ریاستی اسمبلی کے سات روزہ اجلاس 37.44 گھنٹے تک جاری رہا’ 8 بل منظور
شمش آباد میں ایئر انڈیا کی طیارہ کی ہنگامی لینڈ نگ
Recent controversy over temples and mosques: RSS chief Mohan Bhagwat’s statement welcomed by religious and political leaders
بنگلہ دیش: تبلیغی جماعت میں خانہ جنگی،خونریزی میں 4 ہلاک 50 زخمی
انڈیا اتحا اور این ڈی اے کے اراکین پارلیمنٹ کا ایک دوسرے کے خلاف احتجاج