امریکہ میں گزشتہ ہفتے ایک سیاہ فام شہری کی پولیس کی حراست میں ہلاکت کے بعد مظاہروں کا سلسلہ سات روز سے جاری ہے۔ اس واقعے کے بعد امریکہ میں نسلی تعصب کے معاملے پر بحث ایک بار پھر زور پکڑ گئی ہے۔
امریکہ کے علاوہ دنیا کے مختلف شہروں میں بھی اس واقعے کی مذمت اور اس پر احتجاج ہو رہا ہے۔
امریکہ کی ریاست منی سوٹا کے شہر منیاپولس میں گزشتہ پیر کو 46 سالہ جارج فلائیڈ پولیس کی حراست دم توڑ گیا تھا۔
فلائیڈ کی گرفتاری کے وقت کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی جس میں دیکھا جاسکتا تھا کہ جارج فلائیڈ کی گردن پر پولیس اہلکار نے گھٹنا رکھ کر دباؤ ڈالا ہوا ہے۔
ویڈیو میں جارج فلائیڈ کو مسلسل فریاد کرتے دیکھا جاسکتا تھا کہ اس کا سانس گھٹ رہا ہے، لہذٰا اسے چھوڑ دیا جائے۔ واقعے کی عکس بندی کرنے والے راہ گیروں نے بھی فلائیڈ کے اوپر سوار پولیس اہلکار سے ہٹنے کی بارہا درخواست کی تھی لیکن پولیس اہلکار ٹس سے مس نہیں ہوا تھا۔ کچھ دیر بعد فلائیڈ بے ہوش ہو گیا تھا جس کے بعد موقع پر پہنچنے والی ایمبولینس اسے لے گئی تھی اور بعد ازاں فلائیڈ کی ہلاکت کی خبر آئی تھی۔
جارج فلائیڈ کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کی ویڈیو منظرِ عام پر آنے کے بعد ابتداً منیاپولس شہر میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا تھا جو اب پورے امریکہ میں پھیل گیا ہے۔
مظاہرین نے ریاست منیاپولس کے مختلف علاقوں میں زبردست احتجاج کیا تھا جس پر بعض مقامات پر پولیس نے طاقت کا بھی استعمال کیا تھا اور مظاہرین پر ربڑ کی گولیاں اور آنسو گیس کی شیلنگ کی تھی۔
اس دوران مشتعل مظاہرین نے منیاپولس کے ایک پولیس اسٹیشن کو بھی نذرِ آتش کر دیا تھا۔
واقعے کے بعد حکام نے فلائیڈ کو گرفتار کرنے والے پولیس اہلکاروں کو ملازمت سے برطرف کر دیا تھا۔ لیکن مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ فلائیڈ کی گردن پر سوار ہونے والے پولیس اہلکار کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا جائے۔
پولیس کے مطابق جارج فلائیڈ منیاپولس کے ایک ڈپارٹمنٹل اسٹور سے 20 ڈالر کے جعلی نوٹ پر خریداری کرنا چاہتا تھا۔ شکایت ملنے پر پولیس نے اسے حراست میں لینے کی کوشش کی تھی لیکن اس کی مزاحمت پر پولیس اہلکاروں کو طاقت استعمال کرنا پڑی تھی۔ منیاپولس کی پولیس نے کہا تھا کہ یہ واقعہ حادثاتی تھا اور پولیس اہلکاروں کا فلائیڈ کو جان سے مارنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔
بعد ازاں احتجاج میں شدت آنے اور واقعے پر امریکہ بھر میں شدید غم و غصے کے اظہار کے بعد بالآخر منیاپولس کی مقامی انتظامیہ نے جمعے کو فلائیڈ کی گردن پر گھٹنا رکھنے والے پولیس اہلکار ڈیرک چاون کے خلاف ‘تھرڈ ڈگری قتل’ کا مقدمہ درج کرلیا تھا۔
‘تھرڈ ڈگری مرڈر’ سے کیا مراد ہے؟
تھرڈ ڈگری قتل سے مراد یہ ہے کہ متعلقہ پولیس اہلکار کی جارج فلائیڈ کو قتل کرنے کی نیت نہیں تھی اور یہ قتل اہلکار کی غلطی سے ہوا۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ پولیس اہلکار نے انتہائی غیر ذمہ دارانہ عمل کیا اور اس کے نزدیک انسانی زندگی کی کوئی وقعت نہیں تھی۔ اس نے متاثرہ شخص کی زندگی کو کوئی اہمیت نہیں دی جس سے وہ ہلاک ہو گیا جو ایک طرح سے اقدامِ قتل کے زمرے میں آتا ہے۔
فرسٹ اور سیکنڈ ڈگری قتل کی دفعات میں نیت کا عمل دخل ہوتا ہے کہ مذکورہ شخص نے کسی دوسرے شخص کو مارنے کی نیت سے اُس پر تشدد کیا۔
حکام کا کہنا ہے کہ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ کسی پولیس اہلکار کے خلاف اتنی تیز رفتاری سے کارروائی کرتے ہوئے تھرڈ ڈگری قتل کا الزام عائد کیا گیا ہو۔
یکم جون کو جاری کی جانے والی جارج فلائیڈ کی تفصیلی پوسٹ مارٹم رپورٹ سے بھی واضح ہوا ہے کہ جارج فلائیڈ کی موت سانس گھٹنے سے ہوئی۔
البتہ مظاہرین کا کہنا ہے کہ تھرڈ ڈگری چارج کافی نہیں ہے اور مذکورہ پولیس افسر کے خلاف مزید سخت کارروائی کے علاوہ جارج فلائیڈ کی گرفتاری کے وقت موقع پر موجود دیگر تین اہلکاروں کے خلاف بھی کارروائی کی جائے۔
امریکہ میں نسلی امتیاز پر بحث
جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے بعد امریکہ میں نسلی امتیاز، منافرت اور تشدد پر بحث بھی زور پکڑ گئی ہے اور مظاہرین پولیس تشدد کے باعث ماضی میں ہلاک ہونے والے دیگر سیاہ فام افراد کو بھی یاد کرتے ہوئے ان کے واقعات کو جارج فلائیڈ سے تشبیہہ دے رہے ہیں۔
امریکہ میں جارج فلائیڈ کی پولیس تحویل میں ہلاکت کا یہ واقعہ ایسے وقت پیش آیا ہے جب رواں سال فروری میں ایک سفید فام سابق پولیس اہلکار اور اس کے بیٹے کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے ایک اور سیاہ فام شخص احمد آربری کے واقعے پر ملک میں پہلے ہی بحث اور احتجاج جاری تھا۔
لیکن امریکہ میں اپنی نوعیت کے یہ پہلے واقعات نہیں۔ امریکہ کے شہر فرگوسن میں 2014 میں سفید فام پولیس اہلکار کے ہاتھوں 18 سالہ سیاہ فام نوجوان مائیکل براؤن کی ہلاکت کے بعد بھی ملک گیر احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔
مظاہرین کا کہنا ہے کہ تواتر سے اس طرح کے واقعات کا پیش آنا ایک مخصوص سوچ کی عکاسی کرتا ہے جو امریکہ میں سفید فاموں کے علاوہ کسی دوسرے رنگ اور نسل سے تعلق رکھنے والوں کے حوالے سے تعصب کی عکاس ہے۔
امریکہ میں پولیس کو حاصل اختیارات میں کمی کے مطالبات بھی سامنے آ رہے ہیں جب کہ بعض ناقدین یہ سوال بھی اُٹھا رہے ہیں کہ آخر سیاہ فام افراد کے ساتھ ہی تواتر کے ساتھ ایسے واقعات کیوں پیش آتے ہیں؟
سیاہ فام شہری کی ہلاکت پر وائٹ ہاؤس کے باہر مظاہرہ
در ٹرمپ کا ردِ عمل اور مظاہروں میں شدت
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منیاپولس میں سیاہ فام شخص کی ہلاکت کے بعد ہونے والے پرتشدد مظاہروں پر سخت ردِ عمل دیا تھا اور بعض افراد کا خیال ہے کہ صدر کے اس ردِ عمل کے نتیجے میں مظاہروں میں شدت آئی ہے۔
صدر ٹرمپ نے فلائیڈ کے ساتھ پیش آنے والے واقعے پر افسوس کا اظہار تو کیا تھا، لیکن منیاپولس کے اسٹورز میں لوٹ مار کے واقعات پر کہا تھا کہ اُنہوں نے منی سوٹا کے گورنر ٹم والز سے بات کی ہے اور اُنہیں کہا ہے کہ فوج کسی بھی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے تیار ہے۔
منیاپولس میں مظاہرین پر پولیس کے تشدد سے متعلق صدر ٹرمپ نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ “جب لوٹ مار ہوتی ہے تو پھر فائرنگ بھی ہوتی ہے۔” صدر کے اس بیان پر کڑی تنقید ہوئی تھی اور ‘ٹوئٹر’ نے بھی صدر کے اس ٹوئٹ کو “تشدد کو ہوا دینے والا بیان” قرار دیتے ہوئے اس پر انتباہی نوٹس لگایا تھا۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کی اس ٹوئٹ نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور یہ مظاہرے منی سوٹا کے علاوہ امریکہ کے مختلف شہروں میں پھیل گئے۔
صدر ٹرمپ نے پیر کو ملک بھر میں جاری پرتشدد مظاہروں کو کنٹرول کرنے کے لیے فوج بلانے کا بھی عندیہ دیا ہے جس پر اپوزیشن رہنماؤں کا سخت ردِ عمل سامنے آیا ہے۔
مظاہرے کہاں کہاں ہو رہے ہیں؟
منیاپولس کے علاوہ امریکہ کے کئی شہروں میں پرتشدد مظاہرے ہو رہے ہیں جن میں سے کئی میں جلاؤ گھیراؤ اور لوٹ مار کے واقعات بھی پیش آئے ہیں۔
ملک کے 40 شہروں میں کرفیو جب کہ دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی کے علاوہ 23 ریاستوں میں ‘نیشنل گارڈ’ کو تعینات کردیا گیا ہے۔ نیشنل گارڈ امریکہ میں ریزرو فوجی دستوں کو کہا جاتا ہے جنہیں ریاستوں کے گورنرز یا صدر ہنگامی صورتِ حال میں شہری انتظامیہ کی مدد کے لیے طلب کرسکتے ہیں۔
مظاہروں اور ہنگامہ آرائی کے پیشِ نظر نیویارک اور لاس اینجلس میں کئی دہائیوں بعد سخت کرفیو لگایا گیا ہے۔ نیو یارک میں رات 11 بجے سے صبح پانچ بجے تک کرفیو نافذ ہے۔
امریکہ کے علاوہ برطانیہ، جرمنی، فرانس، ڈنمارک، اٹلی، برازیل، میکسیکو، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں بھی جارج فلائیڈ کی پولیس تحویل میں ہلاکت پر احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے