.
رسول اللہ)ص) مشرکین قریش کی
ریشہ دوانیوں کی وجہ سے مکہ سے ہجرت کرگئے تھے تو فرزند رسول(ص) کو ان ہی وجوہات
اور ان ہی مشرکین کی اولاد کی سازشوں کی بنا پر مدینہ چھوڑ کر مکہ اور پھر عراق کی
طرف ہجرت کرنا پڑی جنہوں نے امام حسین(ع) کو قتل کرکے کہا: کاش میرے بدر میں مارے
گئے آباء و اجداد آج زندہ ہوتے اور میرے اس کارنامے کو دیکھ کر کہتے تیرے ہاتھ شل
نہ ہوں؛ یعنی مدینہ سے مکہ اور عراق کی طرف امام حسین(ع) کی ہجرت اسلام کے
دعویداروں کی سازشوں کا نتیجہ تھی۔ یہاں اس ہجرت کے مختلف مراحل اختصاراً بیان کئے
جارہے ہیں:
ترک وطن
امام(ع) نے مدینہ سے نکلنے کا ارادہ کیا؛ رات کے وقت اپنی والدہ
ماجدہ اور بھائی کی قبور پر حاضری دی اور نماز بجا لائی اور وداع کیا اور صبح کے
وقت گھر لوٹ آئے۔
امام(ع) نے مدینہ سے نکلنے سے پہلے جو وصیت لکھی اس کا مضمون
کچھ یوں تھا:
ترجمہ: میں اپنا وطن کسی شر و فساد پھیلانے اور ظلم و ستم کرنے
کی خاطر نہیں چھوڑ رہا ہوں بلکہ مدینہ سے میری روانگی کا مقصد یہ ہے کہ اپنے نانا
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ کی امت کی اصلاح کروں؛ اور امر بالمعروف کروں اور
نہی عن المنکر کروں اور میں اپنے نانا رسول اللہ(ص) اور بابا علی بن ابی طالب(ع)
کی سیرت پر عمل پیرا ہونا چاہتا ہوں۔
مکہ کی طرف روانگی
امام حسین(ع) اٹھائیس رجب کو رات کے وقت اپنے خاندان اور اصحاب
کے ساتھ مدینہ سے روانہ ہوئے۔ اس سفر میں محمد بن حنفیہ کے علاوہ امام حسین(ع) کے
اکثر عزیز و اقارب (منجملہ آپ کے بیٹے، بیٹیاں، بھائی، اور بھتیجے) آپ کے ساتھ تھے۔
امام حسین(ع) پانچ روز بعد 3 شعبان سنہ 60 ہجری کو مکہ میں داخل
ہوئے اور اہلیان مکہ اور حُجاجِ بیت اللہ الحرام نے آپ کا شاندار استقبال کیا۔
امام مکہ میں
مکہ میں قیام کے دوران امام حسین(ع) کی رہائشگاہ میں لوگوں کا تانتا
بندھا رہتا تھا آپ لوگوں کو حقیقی اسلام کی تعلیمات اور بنو امیہ، یزید اور ان کو
خلافت کی کرسی تک پہنچانے والوں کے بارے میں آگاہ کرتے۔
کوفیوں کے خطوط اور آپ کو قیام کی دعوت
شیعیان عراق کو معاویہ کی موت کی خبر ملی تو وہ سليمان بن صُرَد
خزاعی کے گھر میں جمع ہوئے اور امام حسین(ع) کے لئے خط لکھ کر آپ کو کوفہ آنے کی
دعوت دی۔ انھوں نے خط عبداللہ بن سَبعِ ہَمْدانى اور عبداللہ بن وال ہاتھوں مکہ
روانہ کیا جو 10رمضان کو مکہ میں امام حسین(ع) کوملا۔ اس کے بعد آپ کو کوفیوں کے
ہزاروں خطوط موصول ہوئے جن میں انہوں نے آپ(ع) سے کوفہ آنے کی درخواست کی۔
کوفہ کے لئے امام(ع) کے سفیر
امام(ع) نے کوفیوں کے نام ایک خط دے کر اپنے چچا زاد بھائی مسلم
بن عقیل کو عراق روانہ کیا تا کہ وہاں کے حالات کا جائزہ لیں اور آپ کو حالات کی
خبر دیں۔ مسلم 5 شوال کو کوفہ پہنچ کر مختار بن ابی عبیدہ ثقفی کے گھر میں مقیم
ہوئے۔ شیعیان کوفہ مسلم کی آمد سے مطلع ہونے کے بعد ان کے پاس حاضر ہوئے اور ان کے
ہاتھ پر بیعت کی۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ 18000 افراد نے ان کے ہاتھ پر بیعت
کی۔ جناب مسلم نے اہل کوفہ کے ان تمام حالات سے امام حسین علیہ السلام کو ایک خط
کے ذریعے آگاہ کیا ۔
اسی دوران یزید نے اپنے مشیر سرجون نصرانی سے مشورہ کیا اور اس
کے مشورے پر کوفہ اور بصرہ کی حکومت ابن زیاد کے سپرد کردی۔ ابن زیاد بھیس بدل کر
کوفہ میں داخل ہوا اور دارالعمارہ پہنچ کر اپنا تعارف کرایا۔
ابن زیاد ڈرا دھمکا کر اور لالچ دے کر اہل کوفہ کو جناب مسلم کی
مدد سے روکنے میں کامیاب ہو گیااور آخر میں جناب مسلم بن عقیل کو شہید کر دیا گیا۔
سرزمین شہادت کی طرف
یزید ملعون نے عمرو بن سعید بن عاص کو ایک لشکر کے ساتھ حاجیوں
کے لباس میں بھیجا اور اسے حکم دیا کہ اگر امام حسین علیہ السلام خانہ کعبہ کے
پردوں میں بھی ہوں تب بھی انہیں قتل کردو۔ امام حسین علیہ السلام تک جب یہ خبر
پہنچی تو آٹھ ذی الحجہ کو آپ نے اپنے حج کو عمرہ میں تبدیل کیا اور احرامِ حج کھول
دیئے تاکہ ان کے قتل سے کعبہ اور ماہِ حج کی حرمت پامال نہ ہو اور دوسری طرف جناب
مسلم علیہ السلام کی طرف سے بھی امام حسین علیہ السلام کو ایک خط مل چکا تھا کہ جس
میں لکھا ہوا تھا کہ کوفہ والے جان و مال کے ذریعے فرزندِ بتول کی مدد و نصرت کے
لیے تیار ہیں اور اپنے ملک میں حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام کی حکومت کی مثل
حکومت قائم ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔
پس حضرت امام حسین علیہ السلام اپنے اہل و عیال کے ساتھ مکہ سے
روانہ ہوئے کہ جن کو ستاروں کی طرح چمکتے ہوئے اہلِ بیت علیھم السلام کے جوانوں نے
گھیر رکھا تھا۔
حر بن یزید ریاحی کی سپاہ کا سامنا
عبیداللہ بن زیاد کو امام حسین(ع) کی کوفہ کی جانب روانگی کی
خبر ہوئی تو اس نے اپنی کوتوالی کے سربراہ حصین بن تمیم تمیمی کو چارہزار کا لشکر
دے کر “قادسیہ” روانہ کیا تا کہ “قادسیہ” سے “خفان”
اور “قُطقُطانیّه” سےلعلع تک کے علاقوں کی کڑی نگرانی کرے تا کہ ان
علاقوں سے آمد و رفت کرنے والے افراد کی نقل و حرکت سے آگاہی حاصل کرسکے۔ حر بن
یزید ریاحی کا ایک ہزار کا لشکر بھی حصین کے لشکر کا حصہ تھا جو قافلۂ حسینی کا
راستہ روکنے کے لئے بھجوایا گیا تھا۔ ابو مِخنَف نے اس سفر میں امام حسین(ع) کے
قافلے میں شامل دو اسدی افراد سے نقل کیا ہے کہ “جب قافلۂ حسینی
“شراف” کی منزل سے روانہ ہوا تو دن کے وسط میں دشمن کے لشکر کے ہراول
دستے اور ان کے گھوڑوں کی گردنیں نظر آنا شروع ہو گئیں “۔ “پس امام(ع)نے
“ذو حُسَم” کا رخ کیا۔ حر بن یزید اور اس کے سپاہی ظہر کے وقت امام
حسین(ع) اور آپ کے اصحاب کے آمنے سامنے آگئے؛ امام(ع) نے اپنے اصحاب کو حکم دیا کہ
حر اور اس کے سپاہیوں کو اور گھوڑوں کو پانی پلائیں۔ چنانچہ انھوں نے نہ صرف دشمن
کے لشکر کو سیراب کیا بلکہ ان کے گھوڑوں کی پیاس بھی بجھا دی۔
اسی دن عصر کے وقت امام حسین(ع) نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ
روانگی کی تیاری کریں۔ اور پھر نماز عصر کے وقت امام علیہ السلام پھر بھی اپنے
خیمے سے باہر آئے اور مؤذن کو اذان عصر دینے کی اور نماز عصر ادا کرنے کے بعد
لوگوں سے مخاطب ہوئے اور حمد و ثنائے پروردگار کے بعد فرمایا: “اے لوگو! خدا
سے ڈروگے اور حق کو اہل حق کے لئے قرار دوگے تو خداوند متعال کی خوشنودی کا سبب فراہم
کرو گے؛ ہم اہل بیتِ محمد(ص) منصب خلافت اور تمہاری ولایت و امامت امامت کے کہیں
زیادہ حقدار ہیں ان غیر حقی دعویداروں کی نسبت، جن سے اس منصب کا کوئی تعلق ہی
نہیں ہے اور تمہارے ساتھ ان کا رویہ غیر منصفانہ ہے اور وہ تمہاری نسبت ظلم و جفا
روا رکھتے ہیں۔ [اس کے باوجود] اگر تم ہمارا حق تسلیم نہیں کرتے ہو اور ہمارے
اطاعت کی طرف مائل نہیں ہو اور تمہاری رائے تمہارے خطوط میں لکھے ہوئے مضمون سے ہم
آہنگ نہیں ہے تو میں یہیں سے واپس چلا جاتا ہوں”۔
حر بن یزید نے کہا: “مجھے ان خطوط و مراسلات کا کوئی علم
نہيں ہے جن کی طرف آپ نے اشارہ کیا؛ اور مزید کہا: ہم ان خطوط کے لکھنے والوں میں
سے نہیں تھے۔ ہمیں حکم ہے کہ آپ کا سامنا کرتے ہی آپ کو ابن زياد کے پاس لے
جائیں”۔[102] امام(ع) نے اپنے قافلے سے مخاطب ہوکر فرمایا: “واپس
لوٹو!”، جب وہ واپس جانے لگے تو حر اور اس کے ساتھ سدّ راہ بن گئے اور حر نے
کہا: “مجھے آپ کو ابن زیاد کے پاس لے جانا ہے!”۔
امام(ع) نے فرمایا: “امام(ع) نے فرمایا: “خدا کی قسم!
تمہارے پیچھے نہیں آؤں گا”۔
حر نے کہا: “میں آپ کے ساتھ جنگ و جدل پر مامور نہیں ہوں؛
لیکن مجھے حکم ہے کہ آپ سے جدا نہ ہوں حتی کہ آپ کو کوفہ لے جاؤں؛ پس اگر آپ میرے
ساتھ آنے سے اجتناب کرتے ہيں تو ایسے راستے پر چلیں جو کوفہ کی طرف جارہا ہو نہ ہی
مدینہ کی طرف؛ تا کہ میں ایک خط عبید اللہ بن زیاد کے لئے روانہ کروں؛ آپ بھی اگر
چاہيں تو ایک خط یزید کے لئے لکھیں! تا کہ شاید یہ امر عافیت اور امن و آشتی پر منتج
ہوجائے؛ میرے نزدیک یہ عمل اس سے کہیں زیادہ بہتر ہے کہ میں آپ کے ساتھ جنگ و جدل
میں آلودہ ہوجاؤں”۔
امام حسین(ع) “عذیب” اور “قادسیہ” کے بائیں
جانب سے روانہ ہوئے جبکہ آپ(ع) عذیب سے 38 میل کے فاصلے پر تھے اور حر آپ کے ساتھ
ساتھ چل رہا تھا۔
ابن زیاد کے قاصد کی آمد
پو پھٹتے وقت امام حسین(ع) البیضہ کی منزل پر رک گئے اور نماز
صبح ادا کی اور پھر اپنے اصحاب اور اہل خاندان کے ساتھ روانہ ہوئے حتی کہ ظہر کے
وقت سرزمین نیوی’ میں پہنچے۔ ابن زياد کے قاصد نے خط حر کے حوالے کیا جس میں اس نے
لکھا تھا: ” جونہی میرا خط تم تک پہنچے اور میرا قاصد تمہارے پاس آئے تو حسین
پر سختی کرو اور انہیں مت اتارو مگر لق و دق اور بےآب و گیاہ زمین پر! میں نے اپنے
ایلچی کو حکم دیا ہے کہ تم سے جدا نہ ہو تاکہ وہ میرے فرمان پر عملدرآمد کی خبر
مجھے پہنچا دے۔
حر نے ابن زياد کا خط امام حسین(ع) کو پڑھ کر سنایا، امام(ع) نے
فرمایا: “ہمیں “نینوی'” یا “غاضریہ” میں اترنے دو”۔
حر نے کہا: “یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ عبید اللہ یہ خط
پہنچانے والے قاصد کو مجھ پر جاسوس قرار دیا ہے!”
زہیر نے کہا:”خدا کی قسم! مجھے محسوس ہورہا ہے کہ اس کے
بعد ہمیں مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا؛ یابن رسولِ اللہ! اس وقت اس گروہ(حر
اور اس کے ساتھیوں) کے ساتھ لڑنا زیادہ آسان ہے ان لوگوں کے ساتھ جنگ کی نسبت، جو
ان کے پیچھے آرہے ہیں؛ میری جان کی قسم! ان کے پیچھے ایسے افراد آرہے ہیں جن کے
ساتھ لڑنے کی طاقت ہمارے پاس نہيں ہے”۔امام(ع) نے فرمایا: “درست کہہ رہے
ہو اے زہیر؛ لیکن میں جنگ شروع کرنے والا نہ ہونگا”۔زہیر قریب ہی فرات کے
کنارے ایک بستی ہے جہاں حفاظت کے لئے قدرتی انتظام موجود ہے اور اس کو ایک طرف کے
ساتھ تمام اطراف سے فرات نے گھیر لیا ہے”۔امام حسین(ع) نے فرمایا: “اس
بستی کا نام کیا ہے؟”عرض کیا: اس کا نام] “عقر” [ہے ۔امام (ع) نے
فرمایا: “خدا کی پناہ مانگتا ہوں عقر سے!”۔ پس ساتھ ساتھ چلتے رہے حتی
کہ “کربلا” پہنچ گئے۔ حر اور اس کے ساتھی امام حسین(ع) کے سامنے آکر
کھڑے ہوگئے اور انہیں سفر جاری رکھنے سے باز رکھا۔
امام حسین(ع) کربلا میں
بیشتر تاریخی منابع نے اپنی روایات میں پنج شنبہ (جمعرات) دو
محرم الحرام سنہ 61 ہجری کو امام حسین(ع) اور آپ کے اصحاب کے کربلا میں اترنے کی
تاریخ قرار دیا ہے۔
جب حر نے امام(ع) سے کہا: “یہیں اتریں کیونکہ فرات قریب
ہے”۔امام(ع) نے فرمایا: “اس جگہ کا نام کیا ہے؟”۔
سب نے کہا: كربلا۔ فرمایا: یہاں كَرْب (رنج) اور بَلا کا مقام
ہے۔ میرے والد صفین کی طرف عزیمت کرتے ہوئے یہیں اترے اور میں آپ کے ساتھ تھا۔ رک
گئے اور اس کا نام پوچھا۔ تو لوگوں نے اس کا نام بتا دیا اور آپ نے فرمایا:
“یہاں، یہاں ان کی سواریاں اترنے کا مقام ہے، اور یہاں ان کا خون بہنے کا
مقام ہے”، لوگوں نے حقیقت حال کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا:
“خاندان محمد(ص) کا ایک قافلہ یہاں اترے گا”۔ امام حسین(ع) نے فرمایا:
یہ ہماری سواریاں اور ساز و سامان اتارنے کی جگہ ہے اور [یہاں] ہمارا خون بہنے کا
مقام ہے۔ اور اس کے بعد حکم دیا کہ سازوسامان وہیں اتار دیا جائے اور ایسا ہی کیا
گیا اور وہ پنج شنبہ (جمعرات) دو محرم کا دن تھا۔
منقول ہے کہ کربلا میں پڑاؤ ڈالنے کے بعد، امام حسین(ع) نے اپنے
فرزندوں، بھائیوں اور اہل خاندان کو اکٹھا کیا اور ان سب پر ایک نگاہ ڈالی اور
روئے؛ اور فرمایا: اللهم
انا عترة نبيك محمد، وقد اخرجنا وطردنا، وازعجنا عن حرم جدنا، وتعدت بنو امية
علينا، اللهم فخذ لنا بحقنا، وانصرنا على القوم الظالمين ۔ترجمہ: خداوندا! ہم
تیرے نبی(ص) کی عترت اور خاندان ہیں جنہیں اپنے [شہر و دیار سے] نکال باہر کیا گیا
ہے اور حیران و پریشان اپنے نانا رسول اللہ(ص) کے حرم سے نکالا گیا ہے؛ اور [بار
خدایا!] بنو امیہ نے ہمارے خلاف جارحیت کی؛ خداوندا! پس ان سے ہمارا حق لے لے اور
ظالموں کے خلاف ہماری نصرت فرما”۔
اس کے بعد آپ نے اصحاب کی طرف رخ کیا اور فرمایا: ان الناس عبيد الدنيا، والدين لعق على السنتهم، يحوطونه ما درت معايشهم، فإذا محصوا بالبلاء قل
الديانون”۔ ترجمہ: لوگ دنیا کے غلام ہیں اور دین صرف ان کی زبانوں تک
محدود ہے اس وقت تک دین کی حمایت و پشت پناہی کرتے ہیں جب تک ان کی زندگی فلاح و
رفاہ میں ہو اور جب بھی بلاء اور آزمائش کی گھڑی ہو تو دیندار بہت قلیل ہیں ۔
اس کے بعد امام(ع) نے سرزمین کربلا کو ـ جس کا رقبہ x4 4میل تھا ـ نینوی’ اور غاضریہ کے
باشندوں سے 60000 درہم کے عوض خرید لیا۔ اور ان پر شرط رکھی کہ آپ کی قبر کی طرف
لوگوں کی راہنمائی کریں گے اور تین تک ان کی پذیرائی اور ضیافت کا اہتمام کریں گے۔
دو محرم سنہ 61 ہجری کو امام حسین(ع) اور اصحاب کربلا میں
حسین(ع) کے سرزمین کربلا پر اترنے کے بعد، حر بن يزيد ریاحی نے ایک خط عبید اللہ
بن زیاد کے لئے لکھا اور اس کو اس امر کی اطلاع دی۔ حرکا خط موصول ہونے پر عبید
اللہ نے ایک خط امام حسین(ع) کے نام بھیجا جس میں اس نے لکھا تھا: امّا بعد، اے
حسین(ع)! کربلا میں تمہارے پڑاؤ ڈالنے کی خبر ملی؛ امیر المؤمنین!! یزید بن معاویہ
نے مجھے حکم دیا ہے کہ چین سے نہ سؤوں اور پیٹ بھر کر کھانا نہ کھاؤں حتی کہ تمہیں
خدائے دانائے لطیف سے ملحق [قتل] کروں یا پھر تمہیں اپنے حکم اور یزید کے حکم کی
تعمیل پر آمادہ کروں!۔ والسلام”۔
مروی ہے کہ امام حسین(ع) نے پڑھنے کے بعد خط کو ایک طرف پھینک
دیا اور فرمایا: جن لوگوں نے اپنی رضا اور خوشنودی کو خدا کی رضا اور خوشنودی پر
مقدم رکھا وہ ہرگز فلاح نہ پاسکیں گے”۔ ابن زیاد کے قاصد نے کہا: “یا
ابا عبداللہ! آپ خط کا جواب نہیں دیں گے؟ فرمایا: “اس خط کا جواب اللہ کا
دردناک عذاب ہے جو بہت جلد اس کو اپنی لپیٹ میں لے گا ۔
قاصد ابن زیاد واپس چلا گیا اور امام حسین(ع) کا کلام اس کے
سامنے دہرایا اور عبید اللہ نے امام(ع) کے خلاف جنگ کے لئے لشکر تشکیل دینے کا حکم
دیا۔