کسی قانون کیخلاف ا حتجاج کا عوام کو بنیادی حق : سپریم کورٹ


l احتجاج سے راستہ کی مسدودی باعث تشویش ، 24 فبروری کو اگلی سماعت l متبادل مقام پر احتجاج کی ترغیب دینے دو وکلاء کا تقرر

نئی دہلی ۔ 17 فبروری ۔- سپریم کورٹ نے آج کہا کہ عوام کو کسی قانون کے خلاف احتجاج کرنے کا بنیادی حق حاصل ہے لیکن اس کے لئے عوامی راستوں و سڑک کو مسدود کرنا تشویش کی بات ہے اور اس میں توازن ہونا چاہئے ۔ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف دہلی کے شاہین باغ میں جاری احتجاج کے باعث سڑک کی مسدودی کے خلاف داخل کی گئی درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ کی جسٹس ایس کے کول اور جسٹس کے ایم جوزف پر مشتمل بنچ نے کہاکہ یہ تشویش کی بات ہے اگر لوگ سڑکوں پر احتجاج کریں گے تو کیا ہوگا ۔ جمہوریت میں اظہارخیال کی آزادی ہے لیکن اس کی کچھ پابندیاں اور کچھ اُصول بھی ہیں ۔ سپریم کورٹ نے شاہین باغ کے احتجاجیوں سے بات چیت اور کسی متبادل مقام پر احتجاج کرنے جہاں کوئی عوامی مقام مسدود نہ ہوں کے لئے ترغیب دینے کی غرض سے دو وکلاء سنجے ہیگڈے اور سادھنا رامچندرن کو مذاکرات کار کی حیثیت سے مقرر کیا ہے ۔ عدالت نے اس مسئلہ پر آئندہ سماعت کو 24 رفبروری تک ملتوی کردیا ۔ عدالت کا احساس ہے کہ عوام کو احتجاج کا بنیادی حق حاصل ہے لیکن سڑکوں کی مسدودی سے دوسروں کو تکلیف ہورہی ہے ۔ سالیسٹر جنرل تشارمہتا نے کہاکہ شاہین باغ کے احتجاجیوں کو یہ پیام نہیں جانا چاہئے کہ ہر ادارہ ان کے سامنے جھک گیا ہے اور اُنھیں اس مسئلہ پر ترغیب دینے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ سپریم کورٹ نے کہاکہ اگر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا ہے تو وہ اس مسئلہ اور صورتحال سے نمٹنے کو حکام پر چھوڑتا ہے ۔ عدالت کا یہ بھی احساس ہے کہ احتجاجیوں نے اپنی بات رکھ دی ہے اور ایک عرصہ سے احتجاج کررہے ہیں۔ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کے باعث 15 ڈسمبر سے کلندی کنج ۔شاہین باغ راستہ اور اوکھلا انڈر پاس پر تحدیدات عائد کردی گئی ہیں۔ قبل ازیں عدالت عظمیٰ نے کہا تھا کہ شاہین باغ کے احتجاجی عوامی راستوں کو روک نہیں سکتے اور نہ دوسروں کے لئے مشکلات پیدا کرسکتے ہیں۔ سپریم کورٹ میں آج وکیل امیت ساہنی کی درخواست پر سماعت کی گئی جنھوں نے پہلے دہلی ہائیکورٹ میں درخواست داخل کرتے ہوئے کلندی کنج ۔ شاہین باغ راستہ پر ٹریفک کے بہاؤ کو آسان بنانے کے لئے دہلی پولیس کو ہدایت دینے کی اپیل کی تھی جو شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کے باعث گزشتہ 15 ڈسمبر سے بند ہے ۔ امیت سہانی کی درخواست کی سماعت کرتے ہوئے دہلی ہائیکورٹ نے لاء اینڈ آرڈڑ کو ذہن میں رکھتے ہوئے صورتحال سے نمٹنے کی مقامی حُکام کو ہدایت دی تھی ۔ ایک اور درخواست میں بی جے پی کے سابق اسمبلی نندکشور گارک نے سپریم کورٹ سے اپیل کی ہے کہ وہ شاہین باغ سے احتجاجیوں کو ہٹانے کی حکام کو ہدایت دے ۔ ایک درخواست میں احتجاج اور دھرنوں کے باعث عوامی مقامات پر روکاوٹوں کو روکنے کے لئے جامع رہنمایانہ خطوط اور پابندیاں عائد کرنے کی درخواست سپریم کورٹ سے کی گئی ہے ۔ ایڈوکیٹ امیت گارگ نے اپنی درخواست میں کہا کہ قانون نافذ کرنے والی مشنری کو یرغمال بنالیا گیا ہے اور احتجاجیوں نے دہلی سے نوئیڈا کو جوڑنے والی سڑک پر موٹر گاڑیوں اور راہگیروں کی حمل و نقل کو مسدود کردیا ہے ۔ حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرے جن کو سڑک کی مسدودی کے ذریعہ مسلسل مشکلات کا سامنا ہے ۔ یہ افسوس کی بات ہے کہ سرکاری مشنری احتجاجیوں کی غنڈا گردی اور توڑ پھوڑ پر خاموش تماشائی ہے جو جمہوریت کے اُصولوں اور قانون کی حکمرانی کو دھمکی دے رہے ہیں اور پہلے ہی امن و قانون کی صورتحال کو اپنے ہاتھوں میں لے چکے ہیں ۔ ایڈوکیٹ امیت سہانی نے اپنی درخواست میں شاہین باغ کی صورتحال کی نگرانی سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج یا ہائیکورٹ کے برسرعہدہ جج کے ذریعہ کروانے کی خواہش کی ہے جہاں بڑی تعداد میں خواتین دھرنے پر بیٹھی ہیں۔ سہانی نے کہا کہ شاہین باغ سے حوصلہ پاکر ملک کے دوسرے شہروں میں بھی اس طرح کے احتجاجی مظاہرے ہورہے ہیں اور اگر ان احتجاجوں کو جاری رکھنے کی اجازت دی گئی تو یہ غلط مثال قائم ہوگی ۔ یہاں یہ تذکرہ بیجا نہ ہوگا کہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف وسط ڈسمبر سے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے اور احتجاجیوں کو سماج کے مختلف طبقات کی حمایت حاصل ہورہی ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں