یمن میں ایک حملے میں 83 فوجیوں کے مارے جانے کی تصدیق کر دی گئی ہے۔ یمنی فوجیوں کی ہلاکت ایک مسجد پر گرنے والے میزائل حملے میں ہوئی۔
یمن کے فوجی اور طبی ذرائع نے تصدیق کی ہے ایک میزائل حملے سے ایک مسجد کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ میزائل حملہ اتوار انیس جنوری کی صبح میں کیا گیا، جب فوجی نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد میں جمع تھے۔ یہ میزائل حملہ یمن کے وسطی صوبے مارب کی ایک مسجد پر کیا گیا۔
مارب کے طبی ذرائع نے اس مبینہ میزائل حملے میں کم از کم 83 فوجیوں کے ہلاک ہونے کی تصدیق کر دی ہے۔ زخمیوں کی تعداد ڈیڑھ سو قریب ہے۔ یمن کے عسکری حکام کے مطابق میزائل حوثی ملیشیا نے داغا تھا۔ کئی دیگر فوجیوں کے زخمی ہونے کا بھی بتایا گیا ہے۔ آخری خبریں آنے تک امدادی کارروائیوں کا سلسلہ جاری تھا۔ ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ بھی ظاہر کیا گیا ہے۔
یمن کے بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ صدر عبد ربہ منصور ہادی نے اس میزائل حملے کی مذمت کرتے ہوئے اس بزدلانہ اور دہشت گردانہ فعل قرار دیا۔ ہادی نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ حوثی ملیشیا کے اس اقدام سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ امن کی خواہش نہیں رکھتے اور اُن کا یقین تباہی، بربادی اور ہلاکتوں پر ہے۔
یمنی فوج کے نئے فوجیوں کی سربیتی پریڈ
حوثی ملیشیا نے اس حملے کے حوالے سے کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا ہے۔ عدن سے سرکاری نیوز ایجنسی صبا نے بھی ہلاکتوں کی حتمی تعداد کے بارے کوئی رپورٹ جاری نہیں کی ہے۔ حوثی ملیشیا ماضی میں سعودی سرزمین کو بھی بیلسٹک میزائلوں سے نشانہ بناتے رہے ہیں۔
یمنی تنازعہ سن 2014 سے جاری ہے اور اُس وقت ایران نواز حوثی ملیشیا نے پیش قدمی کرتے ہوئے دارالحکومت صنعا پر قبضہ کر لیا تھا۔ یمنی حوثی ملیشیا کو ایران کی حمایت بھی حاصل ہے۔ ان کے خلاف سعودی عرب نے ایک عسکری اتحاد بھی قائم کر رکھا ہے اور سن 2015 سے عسکری حملوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔
صدر عبد ربہ منصور ہادی کو سعودی عرب کی حکومت کی کھلی حمایت حاصل ہے اور انہوں نے بندرگاہی شہر عدن کو اپنا عارضی دارالحکومت بنا رکھا ہے۔ منصور ہادی کو خلیجی ریاست متحد عرب امارات کی بھی عسکری و مالی مدد دستیاب ہے۔ یہ ریاست بھی سعودی عسکری اتحاد میں شامل ہے۔
سعودی عسکری اتحاد حوثی ملیشیا کو فضائی اور زمینی کارروائیوں سے نشانہ بنا رہا ہے لیکن تاحال کثیر الملکی عرب ممالک کا اتحاد حوثی ملیشیا کو شکست دینے سے قاصر ہے۔ یمنی تنازعے میں ہزاروں افراد ہلاک اور لاکھوں زخمی ہو چکے ہیں۔