صدر ٹرمپ کا مواخذہ: سابق صدور کے تجربات سے استفادہ
1 hours ago
واشنگٹن۔توقع ہے کہ امریکی ایوانِ نمائندگان اس ہفتے صدر ٹرمپ کے مواخذے سے متعلق شقوں کو زیر بحث لانے کے لئے سینیٹ بھجوا دے گا، جس سے مواخذے کی باقاعدہ سماعت شروع ہوگی اور یہ طے کیا جائے گا آیا صدر ٹرمپ کو ان کے عہدے سے برطرف کیا جانا چاہئے یا نہیں۔وائس آف امریکہ کے مطا بقفی الحال، صدر ٹرمپ مواخذے کا سامنا کرنے والے اپنے دو پیش رووں کے تجربات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مواخذے کے خطرے کا سامنا کرتے ہوئے صدر ٹرمپ ویسے ہی دفاعی طریقے استعمال کر رہے ہیں جو سابق صدر بل کلنٹن اور ان کی ٹیم نے اختیار کیے تھے۔
جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے ٹاڈ بیلٹ کہتے ہیں کہ ’’صدر ٹرمپ یقینی طور پر ان طریقوں پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ صدر اپنا کام کر رہے ہیں، غیر ملکی دوروں پر جا رہے ہیں اور معمول کے کام کر رہے ہیں۔ یوں، مواخذے کی کارروائی سے ان کی توجہ میں بظاہر کوئی خلل پیدا ہوتا دکھائی نہیں دیتا‘‘۔
تاہم، ٹاڈ بیلٹ کہتے ہیں کہ اس کے ساتھ ساتھ وہ بلند آواز میں یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اس کارروائی سے لوگوں کی مرضی کو بدلنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور آئندہ صدارتی انتخاب کے نتائج کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔صدر ٹرمپ سابق صدر کلنٹن کی حکمت عملیوں کے ساتھ ساتھ وہ طریقے بھی استعمال کر رہے ہیں جو سابق صدر نکسن نے اپنے مواخذے کے دوران کیے تھے۔
صدر نکسن نے کانگریس کی درخواست کے باوجود اوول آفس میں ہونے والی اس گفتگو کی ریکارڈنگ فراہم کرنے سے انکار کر دیا تھا جس میں انہیں واٹرگیٹ سکینڈل میں ملوث پایا گیا تھا۔
وانڈر بلٹ یونیورسٹی کے ٹامس شوارٹز کہتے ہیں کہ سابق صدر نکسن نے مختلف وقتوں میں ٹرانسکرپٹ اور باقی مواد جاری کرتے ہوئے تعاون کرنے کی کوشش کی۔ لیکن، انہوں نے یہ دعویٰ بھی کرنے کی کوشش کی کہ ایسا کرنے سے قومی مفاد متاثر ہو سکتا ہے۔ اور پھر یہ معاملہ سپریم کورٹ میں پہنچ گیا، جس کے فیصلے سے وہ ریکارڈنگ جاری کرنا ہی پڑی۔ایوان نمائندگان میں ڈیموکریٹک پارٹی کی اکثریت والی جوڈیشری کمیٹی نے 1974 میں صدر نکسن کے مواخذے سے متعلق تین شقوں کی منظوری دی جن میں انصاف کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا، اختیارات کا ناجائز استعمال اور کانگریس کی کارروائی میں رکاوٹ ڈالنا شامل تھیں۔
صدر ٹرمپ کے معاملے میں ان میں سے دو شقیں یعنی اختیارات کے ناجائز استعمال اور کانگریس کے کام میں رکاوٹ ڈالنے کی شقیں شامل کی گئی ہیں۔
رپبلکن پارٹی کے کسی بھی رکن نے صدر ٹرمپ کے مواخذے کے حق میں ووٹ نہیں دیا۔ تاہم، سابق صدور کلنٹن اور نکسن کے معاملے میں صورت حال کچھ مختلف تھی، کیونکہ درجنوں رپبلکن ارکان نے بھی ان کے مواخذے کے حق میں ووٹ دیا تھا اور یوں وہ شدید دباؤ کے تحت مستعفی ہونے پر مجبور ہو گئے تھے۔ ان کو مواخذے کی کارروائی کے ساتھ ملک میں بڑھتی ہوئی افراط زر اور بے روزگاری جیسے شدید نوعیت کے معاشی مسائل کا بھی سامنا تھا۔ وانڈر بلٹ یونیورسٹی ٹامس شوارٹز کہتے ہیں کہ نکسن کیلئے مواخذے کی کارروائی کے شدت اختیار کرنے میں ملک کے معاشی مسائل نے بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔صدر ٹرمپ سے پہلے منصب صدارت پر فائز ہونے والی 44 شخصیات میں سے تین کو مواخذے کا سامنا رہا۔ ان تینوں میں سے اینڈریو جانسن اور بل کلنٹن کو مواخذے کے بعد سینیٹ نے بری کر دیا تھا، جبکہ نکسن کو مستعفی ہونا پڑا تھا۔
سوال یہ ہے کہ کیا موجودہ صدر ٹرمپ سینیٹ میں مواخذے سے بچ سکیں گے؟ اصل بات یہ ہے کہ حقیقی طور پر مواخذہ ہو یا نہ ہو، اس کی کارروائی سے متعلق صدر کی شخصیت پر ایک دھبہ ضرور لگ جاتا ہے، جس سے ان کی ساکھ ہمیشہ کیلئے متاثر ہو جاتی ہے۔
جس امریکی صدر کو مواخذے کا سامنا ہوا اسے اگلے انتخاب میں شکست کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ صدر ٹرمپ اس مرحلے سے اس سال نومبر میں گزریں گے۔