حیدرآباد ۔ 26 ۔ ستمبر (پی ایم آئی ) موسیٰ ندی میں طغیانی کے 111 سال ہورہے ہیں۔ 28 ستمبر 1908 ء میں حیدرآباد میں آئے تباہ کن طوفان نے اپنی انمٹ تاریخ چھوڑدی تھی ۔ موسیٰ ندی کے کنارہ واقع شہر حیدرآباد کے کئی علاقے بہہ گئے تھے۔ یہ سیلاب جس کو مقامی طور پر طغیانی ستمبر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ حیدرآباد میں رہنے والے عوام کی زندگی کو تہس نہس کردیا تھا ۔ اس سیلاب میں تقریباً 50,000 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ شہر کے دو حصوں کو جوڑنے والے تین اہم پل افضل گنج پل ، مسلم جنگ پل اور چادر گھاٹ پل سیلاب کی زد میں آکر بہہ گئے تھے ۔ صرف پرانا پل ہی شہر کے دو حصوں کو جوڑنے کا واحد ذریعہ بن گیا تھا۔ اس سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر علاقہ کولسا واڑی اور افضل میں گھانسی بازار ہیں۔ سیلاب سے تقریباً 80,000 مکانات تباہ ہوگئے تھے ۔ ایک بڑی آبادی بے گھر ہوگئی تھی۔ نظام ہاسپٹل بھی تباہ ہوگیا تھا ۔ دواخانہ میں شریک مریض زندہ دفن ہوگئے تھے۔ 1860 ء میں تعمیر کردہ افضل گنج پل، مسلم جنگ پل اور چادر گھاٹ پل صف ہستی سے مٹ گئے تھے۔ نظام حیدرآباد میر محبوب علی خاں نے سیلاب کی تباہی اور طغیانی کے بعد کی صورتحال کا سڑکوں اور گلی کوچوں میں پہنچ کر جائزہ لیا تھا۔ انہوں نے طوفان کی تباہی اور نقصانات کا بھی سروے کروایا۔ طغیانی پر سروجنی نائیڈو نے اپنی نظم میں میر محبوب علی خاں کی عوام کے سامنے اشکباری کا بھی ذکر کیا تھا ۔ انہوں نے اپنی نظم کا عنوان آصفجاہ کے آنسو رکھا تھا ۔ ممتاز تاریخ داں محمد سیف اللہ نے بتایا کہ نظام حیدرآباد نے سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے اور بازآبادکاری کیلئے اس وقت 4.5 لاکھ روپئے کا عطیہ دیا تھا (آج یہ رقم 5 بلین کے مطابق ہوتی ہے) ۔ سیلاب کی تباہی سے متاثرہ تقریباً 80,000 افراد کیلئے روزانہ تین ماہ تک کھانے کا انتظام کیا گیا تھا
تلنگانہ: ریاستی اسمبلی کے سات روزہ اجلاس 37.44 گھنٹے تک جاری رہا’ 8 بل منظور
شمش آباد میں ایئر انڈیا کی طیارہ کی ہنگامی لینڈ نگ
Recent controversy over temples and mosques: RSS chief Mohan Bhagwat’s statement welcomed by religious and political leaders
بنگلہ دیش: تبلیغی جماعت میں خانہ جنگی،خونریزی میں 4 ہلاک 50 زخمی
انڈیا اتحا اور این ڈی اے کے اراکین پارلیمنٹ کا ایک دوسرے کے خلاف احتجاج