ہا ئی کورٹ کی تقسیم ۔ کہیں خوشی کہیں غم

حیدر آباد ۲۷ ڈسمبر(پی ایم آئی)اے پی ہائی کورٹ کی تقسیم کے صدارتی حکمنامہ کی اجرائی کے ساتھ ہی جہاں تلنگانہ کے ایڈوکیٹس نے جشن منایا وہیں آندھرا کے وکلا نے صدارتی حکمنامہ کی اجرائی کے خلاف احتجاج درج کرایا۔ریاست کی تشکیل کے تقریباً ساڑھے چار برس بعد مرکزی حکومت نے حیدرآباد ہائیکورٹ کی تقسیم کے عمل کو منظوری دی جس کے بعد صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند نے کل، حیدرآباد ہائی کورٹ ( دونوں ریاستوں کی مشترکہ عدالت العالیہ) کی تقسیم سے متعلق حکمنامہ جاری کیا ۔ صدارتی حکمنامہ کی اجرائی کے بعد رودموسیٰ کے کنارے ہائی کورٹ کی خوبصورت وقدیم عمارت میں کہیں خوشی کہیں غم کا ماحول دیکھا گیا ۔ جمعرات کو تلنگانہ کے وکلا نے جشن منایا اور آپس میں شیرینی تقسیم کی جبکہ اسی تاریخی عمارت میں آندھرا پردیش کے وکلا نے اجتماعی طور پر احتجاج منظم کیا ۔ اس عمارت کے ایک گوشہ میں جشن وخوشی کا ماحول دیکھا گیا تو دوسرے گوشہ میں مایوسی، غم وغصہ دکھائی دیا ۔ آندھرا پردیش کے وکلا نے جن میں خواتین بھی شامل ہیں احتجاج منظم کیا۔ واضح رہے کہ اے پی تنظیم جدید ایکٹ بابتہ 2014 میں دونوں ریاستوں تلنگانہ اور اے پی کیلئے علیحدہ علیحدہ ہائی کورٹس قائم کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔پی ٹی آئی کے بموجب حیدرآباد ہائی کورٹ میں وکلاکی حیثیت سے فرائض انجام دینے والے پڑوسی ریاست اے پی کے افراد نے کہا کہ اندرون ایک ہفتہ، اے پی ہائی کورٹ کو امراوتی منتقل کرنا غیر واجبی ہے ۔ صدرآندھرار پردیش ہائی کورٹ ایڈوکیٹس اسوسی ایشن کے بی رامنا دورا نے کہا کہ ایک ہفتہ کے اندر یہاں سے امراوتی کیلئے تخلیہ کرنا ممکن نہیں ہے ۔ یہ مہلت غیر واجبی ہے ہر ایک کیلئے مشکل ضرور ہے۔ صدارتی حکمنامہ کے مطابق یکم جنوری سے امراوتی میں اے پی ہائی کورٹ اور حیدرآباد میں تلنگانہ ہائی کورٹ کارکرد ہو جائیں گے ۔ امراوتی میں اے پی ہائی کورٹ میں انفراسٹرکچر دستیاب نہیں ہیں۔ وہاں ابھی عدالت العالیہ عمارت کے تعمیری کام مکمل نہیں ہوئے ہیں۔ امراوتی میں اے پی ہائی کورٹ کی کارکردگی کیلئے مزید وقت دیا جانا چاہئے ۔ انہوںنے کہا کہ اندرون ہفتہ منتقل ہونا، کسی کیلئے ممکن نہیں ہے ۔ منتقلی کیلئے مزید وقت دینا ہوگا ۔ انہوںنے کہا کہ وہ امراوتی منتقل ہونے کے خلاف نہیں ہیں۔ دورا نے کہا کہ اسوسی ایشن کے پاس امراوتی میں اے پی ہائی کورٹ کے قیام کے بارے میں کوئی تفصیلات نہیں ہیں۔دورا نے کہا کہ مرکزی حکومت سے نمائندگی کرتے ہوئے کہا ہے کہ امراوتی میں ہائی کورٹ عمارت کے تعمیری کاموں کی تکمیل کے بعد وہ منتقل ہوجائیں گے ۔ دوسری طرف تلنگانہ کے وکلا جنہوں نے طویل عرصہ سے نئی ریاست میں علیحدہ ہائی کورٹ کے قیام کیلئے جدوجہد کی تھی، نے حیدرآباد ہائی کورٹ کی تقسیم پر مسرت کا اظہار کیا ہے ۔ تلنگانہ ہائی کورٹ ایڈوکیٹس اسوسی ایشن کے صدر سی دامودر ریڈی نے کہا کہ حیدرآباد ہائی کورٹ کی تقسیم کیلئے صدارتی حکمنامہ کی اجرائی پر بہت خوش ہیں خوشی میں کیک کاٹنے کی تقریب منعقد کی گئی ۔ انہوں نے کہا کہ اے پی کے وکلا کو امراوتی میں ابتدا میں چند مشکلات پیش آئیں گی مگر ایک وقت کے بعد وہ ان مشکلات و مصائب سے نکل جائیں گے ۔ ذرائع کے بموجب حیدرآباد ہائی کورٹ میں تقریباً3لاکھ مقدمات زیر التواء ہیں ان میں60 فیصد مقدمات اے پی سے متعلق ہیں۔ اس ہائی کورٹ میں1600 ملازمین کام کررہے ہیں۔ ان ملازمین سے ان کی رائے لی جائیگی کہ وہ تلنگانہ ہائی کورٹ میں کام کریں گے یا اے پی منتقل ہوجائیں گے۔ یکم جنوری سے اے پی کی عدالت العالیہ کو اے پی ہائی کورٹ سے موسوم کیا جائے گا ۔ جبکہ حیدرآباد میں قائم ہائی کورٹ تلنگانہ ہائی کورٹ کے نام سے کام کرے گی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں