اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی ادتیہ ناتھ نے بلندشہر میں ایک پولیس انسپکٹر کی ہجومی تشدد میں موت کو محض ایک حادثہ قرار دے کر بجرنگ دل سے وابستہ کلیدی ملزم یوگیش راج کو ایک طرح سے کلین چٹ دے دی ہے اس سے قبل وہ انسپکٹر کی موت سے بھی زیادہ گایوں کے مبینہ قتل یعنی گو کشی کو لے کر زیادہ فکرمندی ظاہر کر چکے تھے انکے ان دونوں واضح بیانوں کے بعد اب یہ امید کرنا کہ شہید انسپکٹر کے قاتل کیفر کردار کو پہنچیںگے اور صرف بلند شہر نہیں صرف اتر پردیش نہیں بلکہ پورے ملک کو خوفناک فرقہ وارانہ آگ میں جھونکنے کی سازش کا پردہ فاش ہوگا محض احمقوں کی جنت میں رہنا ہوگا –جب ریاست کا وزیر اعلی قاتلوں اور سازشی عناصر کے ساتھ اتنی بے حیائی سے کھڑا ہو تو ان عناصر کے حوصلہ فطری طور سے آسمان چھو رہے ہونگے اور کسی دوسری جگہ کوئی اس سے بھی خطرناک سازش کر کے اپنے مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرینگے کیونکہ 2014کا پارلیمانی الیکشن جیتنے کے لئے انکے پاس اسکے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے – ریاستی پولیس اور انتظامی عملہ بے ریڑھ کا ہو کے رہ گیا ہے وہ اپنا فرض منصبی آئین اور قانون کے مطابق نہیں بلکہ وزیر اعلی کے اشاروں کے مطابق ادا کر رہا ہے یہاں تک کہ اپنے ہی ایک بہادر جانباز اور فرض شناس ساتھ کے قتل پر اسکی غیرت نہیں جاگ رہی ہے اور وہ اس بہیمانہ قتل کو حادثہ تسلیم کرنے پر رازی دکھائی دے رہا ہے –بڑی عیاری اور حکمت عملی سے اس پورے واقعہ کی ایسے جلیبی بنائی جا رہی ہے کہ اصل سازش اور قتل پس پشت چلا جائے اور صرف گو کشی کا معاملہ ہی سامنے رہ جائے –
صرف اتر پردیش ہی نہیں پورے ملک کو فرقہ پرستی کے جہنم میں جھونکنے کی بہت ہی گہری اور خطرناک سازش بلندشہر کی پولیس خاص کر سیانہ تھانہ کے انسپکٹر سوربھ سنگھ نے اپنی جان دے کر ناکام کر دی-دار اصل مودی جی کی گرتی مقبولیت اور آیندہ پارلیمانی انتخاب میں یقینی شکست دیکھتے ہوئے سنگھ پریوار کے ہاتھ پیر پھولے ہوئے ہیں انکے پاس اپنی حکومت کا کوئی کارنامہ دکھا کر عوام سے ووٹ مانگنے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے لے دے فروعی مسایل پر ہندو عوام کا ذہنی استحصال کر کے ہی وہ اپنی نیا پار لگانے کی کوشش کر رہی ہیں مگر اس میں بھی انھیں ناکامی مل رہی ہے –ایودھیا کی دھرم سنسد کو جس طرح مقامی اور بیرونی ہندوؤں نے ناکام کیا اس سے سنگھ پریوار کی تشویش اور بڑھ گی ہے لے دے کے انکے پاس اپنا آزمودہ نسخہ فساد ہی بچا ہے بلند شہر میں وہ یہی نسخہ اپنانا چاہتے تھے لیکن مقامی ہندوؤں اور مسلمانوں نے دور اندیشی کا مظاہرہ کیا اور انسپکٹر سوربھ سنگھ نے عظیم الشان قربانی پیش کر کے امن کی عبارت رقم کر دی –
بلندہ شہر میں اجتماع میں ایک اندازہ کے مطابق پانچ سے سات لاکھ لوگ شریک ہوئے اس اجتماع کی تیاریاں گزشتہ دو برسوں سے چل رہی تھیں مقامی ہندوؤں نے اس میں ہر طرح سے تعاون دیا یہاں تک کہ مندر کے صحن کو نماز کے لئے کھول دیا ظاہر ہے یہ صورت حال سنگھ کو کیسے برداشت ہوتی اس نے ایک خطرناک منصوبہ تیار کیا اجتماع کے خاتمہ کے دن جب چاروں طرف ہزاروں مسلمان اپنے گھروں کو روانہ ہوتے سیانہ تھانہ علاقہ میں گو کشی کے نام پر ہنگامہ کھڑا کر دیا گیا سازش تھی کی ادھر سے گزر رہی مسلمانوں کو گھیر کے مارا جاے اسکے جواب میں مسلمان بھی ہاتھ اٹھاینگے ان پر دہشت گردی کا الزام لگا کر معاملہ کو اور بگاڑ دیا جائے چونکہ ملک بھر کے مسلمان یہاں جمع ہوئے ہیں اسکی گونج ملک بھر میں لازمی طور سے سنائی دیگی ہندو مسلم اختلاف بڑھیگا زبردست پولرائزیشن ہوگا اور سنگھ پروار حسب سابق ووٹوں کی لہلہاتی فصل کاٹ لگا کیونکہ اب تک کا ریکارڈ یہی رہا ہے کہ اس طرح کے ہر تشدد کا سیاسی فایدہ سنگھ پروار کو ملتا رہا ہے لیکن بلندشہر میں بازی پلٹ گئی-
گاے جیسے معصوم جانور کو جس طرح یہ قاتل گروہ اپنی خون کی پیاس بجھانے کے لئے استمعال کر رہا ہے اسکا بہت ہی گھناونا روپ بلندشہر میں دیکھنے کو ملا ان کی سازش تھی کہ گاے کے گوشت کے ٹکرے گننے کے کھیت میں ایسے ٹانگے جایں کہ ہر راہگیر کی نذر انپر پڑے اگر مسلمانوں نے گائے کا گوشت کھانے کے لئے کاٹا ہوتا تو اسکی یوں نمایش نہ ہوتی ویسے بھی گائے کو لے کر جو ماحول ہے اس میں اگر مسلمان کو اجتماعی خود کشی کرنا ہو تبھی گائے کاٹیگا
سب سے شرمناک بات یہ ہے کہ یوگی حکومت اس معاملہ میں صاف طور سے فسادیوں کے ساتھ کھڑی ہے اسی لئے محکمہ پولیس بھی نہ انسپکٹر کے قاتل کی تلاش میں سنجیدہ ہے اور نہ فساد کی اس سنگین سازش پر سے پردہ فاش کرنے میں –اس سے قبل بڑا سے بڑا مافیہ سرغنہ بھی پولیس والوں پر ہاتھ ڈالتے ہوئے گھبراتا تھا کیونکہ تب پورا پولیس محکمہ اس کے پیچھے پڑ جاتا تھا اور اسے چوہے کے بل سے بھی نکال کر کیفر کردار تک پہنچا دیتا تھا لیکن اب اس ملک میں خاص کر اتر پردیش میں الٹی گنگا بہہ رہی ہے اب وزیر اعلی کی اولیں ترجیح گائے کاٹنے والوں کی گرفتاری ہے اسی لئے میرٹھ رنج کے انسپکٹر جنرل نے کہا ہے کہ وہ گو کشی کرنے والوں کو تلاش کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں جس سے اس سازش کا پردہ فاش ہوگا جبکہ کندن نام کے ایک شخص کا گائے کاٹتے ہوئے فوٹو وائرل ہوا تھا جسے فورن ہی ہٹا دیا گیا اسکی فوٹیج ضرور پولیس کے پاس ہوگی اس سے پوچھ گچھ کیوں نہیں کی جا رہی ہے قتل کے سلسلہ میں نامزد لوگ اپنے بیان سوشل میڈیا پر وائرل کر رھے ہیں سرولانس کے ذریعہ انھیں دبوچا جا سکتا ہے لیکن اطلاعات کے مطابق وہ دہلی میں کسی وزیر کے یہاں مقیم ہیں مگر پولیس انھیں پکڑنے میں کوئی سنجیدگی نہیں دکھا رہی ہے پولیس کا اعلی افسران بے شرمی کی چادر اوڑھے انے سیاسی آقاؤں کے اشارہ پر ناچ رہے ہیں –سبکدوش افسران اس صورت حال سے فکر مند ہیں ریاست کے دو سابق پولیس سربراہان وکرم سنگھ اور مسٹر جین نے ٹیلی ویڑن مباحثہ میں صاف کہا کہ اتنے بڑے واقعہ کے بعد تو ریاست کی جیلیں ان ملزموں سے بھر جانی چاہئے تھیں لیکن یہاں تو ایک دم سناٹا ہے لگتا ہے کچھ ہوا ہی نہیں –پولیس اور انتظامیہ اپنے سیاسی آقاؤں کے سامنے عرصہ سے دم ہلاتی رہی ہے لیکن جس بیشرمی اور بے حسی کا مظاہرہ موجودہ حکومت کے سامنے موجودہ پولیس اور انتظامیہ کے افسران کر رہے ہیں وہ بے مثال ہے – ایک ریٹریڈ آء پی ایس افسر وجے شنکر سنگھ نے اپنے ایک بلاگ میں لکھا ہے کہ پولیس فورس میں یونین نہیں ہوتی نچلے عملہ کے پاس اپنی شکایت کے ازالہ کا کوئی پلٹیفارم بھی نہیں ہوتا انکے پاس صرف انکے اعلی افسران ہوتے ہیں جو انکے افسر ہی نہیں سرپرست بھی ہوتے ہیں اپنے ماتحت عملہ کے جذبات اور احساس کا ایک سرپرست کی طرح خیال رکھتے ہیں تبھی انھیں عزت اور احترام ملتا ہے اور انکے حکم پر نچلا عملہ اپنی جاں کی بازی لگا دیتا ہے اگر اس طرح نچلے عملہ کو بے یار و مدد گار چھوڑ دیا جائے تو وہ بغاوت کر سکتے ہیں اس وقت اتر پردیش میں کم و بیش ایسے ہی حالات بن گئے ہیں نچلا عملہ اپنے افسروں کی بے حسی سے نالاں ہے حالانکہ اسے بھی ہندتو کی افیم کھلا کے خواب خرگوش میں رکھا جا رہا ہے لیکن شہید اسںپکٹر کے سلسلہ میں حکومت اور اپنے افسروں کے رویہ سے ان میں سگبگاہٹ ہے جو آنے والے طوفان کا پیش خیمہ بھی ہو سکتی ہے –
بلند شہر کے اس سنگین واقعہ کو لے کر جو حالات بن رھے ہیں ان میں یہ تو با الکل واضح ہے کی سچائی منظر عام پر نہیں آئیگی اور پورا معاملہ دوسری طرف موڑ دیا جایگا وقت گزرنے کے ساتھ لوگوں کے ذہن سے یہ واقعہ معدوم ہو جائیگا اور اس وقفہ میں دوسرے زیادھ خطرناک منصوبہ کا خاکہ تیار کر لیا جائیگا الیکشن تک ایسے واقعات ہوتے رہینگے –