سپریم کورٹ میں EVM-VVPAT معاملے کی سماعت’ الیکشن کمیشن سے کہا کہ انتخابی عمل میں تقد س ہونا چاہیے

جسٹس سنجیو کھنہ اور دیپانکر دتہ کی بنچ نے کہا، “یہ (ایک) انتخابی عمل ہے، اس میں تقدس ہونا چاہیے۔ کسی کو یہ خدشہ نہیں ہونا چاہیے کہ جس کی توقع کی جا رہی ہے وہ نہیں ہو رہا ہے۔”

نئی دہلی 18 اپریل۔۔۔ سپریم کورٹ میں EVM-VVPAT معاملے کی سماعت ہوئی۔ اس دوران ملک کی سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن سے کہا کہ انتخابی عمل میں تقدس ہونا چاہیے۔ کمیشن سے کہا گیا کہ وہ شفاف اور منصفانہ انتخابات کرانے کے لیے کیے جانے والے اقدامات کی تفصیل سے وضاحت کرے۔ عدالت الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں (ای وی ایم) کے ذریعے ڈالے گئے ووٹوں کو وی وی پی اے ٹی سسٹم کے ذریعے تیار کردہ پرچیوں کے ساتھ ملانے کا مطالبہ کرنے والی عرضیوں کی سماعت کر رہی ہے۔

جسٹس سنجیو کھنہ اور دیپانکر دتہ کی بنچ نے کہا، “یہ (ایک) انتخابی عمل ہے، اس میں تقدس ہونا چاہیے۔ کسی کو یہ خدشہ نہیں ہونا چاہیے کہ جس کی توقع کی جا رہی ہے وہ نہیں ہو رہا ہے۔” الیکشن کمیشن کی جانب سے ایڈووکیٹ منیندر سنگھ عدالت میں پیش ہوئے جبکہ درخواست گزاروں کی جانب سے ایڈووکیٹ نظام پاشا اور پرشانت بھوشن پیش ہوئے۔

VVPAT مشین میں شفافیت کا کیا گیا مطالبہ

سماعت کے دوران وکیل پرشانت بھوشن نے کہا کہ کم از کم یہ حکم دیا جائے کہ VVPAT مشین شفاف ہو اور بلب مسلسل جلتا رہے، تاکہ ووٹر کی مکمل تصدیق ہو سکے۔ ایڈووکیٹ سنجے ہیگڑے نے کہا کہ تمام وی وی پی اے ٹی سلپس کی گنتی پر غور کیا جانا چاہئے۔ اگر اب ایسا نہیں ہو سکتا تو عدالت کو چاہیے کہ وہ کچھ عبوری احکامات دے تاکہ انتخابات کی شفافیت کو یقینی بنایا جا سکے۔ باقی مسائل کو بعد میں سنا جائے۔

اس دوران ایک وکیل نے کہا کہ ای وی ایم بنانے والی کمپنیوں کے انجینئر انہیں کنٹرول کر سکتے ہیں۔ عدالت نے اسے فضول دلیل قرار دیا۔ ججوں نے الیکشن کمیشن کے وکیل منیندر سنگھ سے کہا کہ وہ یا تو خود یا کسی اہلکار سے VVPAT سے متعلق عمل کے بارے میں عدالت کو مطلع کریں۔ اس پر منیندر سنگھ نے کہا کہ عدالت کے سوالات کا جواب دیا جائے گا، لیکن وہ عاجزی سے کہنا چاہتے ہیں کہ تمام درخواستیں صرف خدشات پر مبنی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وی وی پی اے ٹی صرف ایک پرنٹر ہے۔

الیکشن کمیشن نے بتایا کہ VVPAT کیسے کام کرتا ہے؟

ججوں سے خطاب کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کے ایک اہلکار نے کہا کہ بٹن یونٹ میں صرف یہ معلومات ہوتی ہیں کہ کس نمبر کا بٹن دبایا گیا۔ یہ معلومات کنٹرول یونٹ کو جاتی ہے۔ پرنٹنگ کی کمانڈ کنٹرول یونٹ سے VVPAT کو جاتی ہے۔ اس پر جج نے پوچھا کہ پھر VVPAT کو کیسے پتہ چلے گا کہ کون سا نشان شائع کرنا ہے؟

افسر نے بتایا کہ یہاں ایک بہت چھوٹا سمبل لوڈنگ یونٹ ہے، جو کہ ٹی وی کے ریموٹ کے سائز کا ہے۔ اسے باہر سے کنٹرول نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ انٹرنیٹ یا کسی بیرونی نیٹ ورک سے منسلک نہیں ہو سکتا۔ یہ یونٹ کنٹرول یونٹ سے موصول ہونے والی کمانڈ پر کارروائی کرتا ہے اور VVPAT کو معلومات فراہم کرتا ہے۔

امیدواروں کی موجودگی میں نشان اور سیریل نمبر اپ لوڈ کیا جاتا ہے: الیکشن کمیشن

سماعت کے دوران جج نے پوچھا کہ اس یونٹ میں کیا معلومات موجود ہیں؟ یہ کب اپ لوڈ ہوتا ہے؟ جواب میں افسر نے کہا کہ اس میں سیریل نمبر، علامت اور نام ہے۔ اسے امیدواروں کے نمائندوں کی موجودگی میں ووٹنگ سے ایک ہفتہ قبل اپ لوڈ کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد اسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ نمائندوں سے اس بات کی تصدیق کی جاتی ہے کہ دبائے جانے والے بٹن کی پرچی وہی تھی جو VVPAT سے نکلی تھی۔

ای وی ایم کے ساتھ چھیڑ چھاڑ ممکن نہیں: الیکشن کمیشن

وی وی پی اے ٹی کیس کی سماعت کرنے والے جج نے الیکشن کمیشن کے افسر سے پوچھا کہ آپ کے پاس کتنے وی وی پی اے ٹی ہیں؟ عہدیدار نے کہا کہ ہمارے پاس 17 لاکھ وی وی پی اے ٹی ہیں۔ اس پر جج نے سوال کیا کہ ای وی ایم اور وی وی پی اے ٹی کے نمبر مختلف کیوں ہیں؟ افسر نے اس کی وضاحت کرنے کی کوشش کی، لیکن جج کو لگا کہ اس کا سوال بحث کا رخ موڑ رہا ہے۔ اس لیے انہوں نے افسر کو جواب دینے سے انکار کر دیا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں