مسلم طالبات کی تعلیمی ضرورتوں کو پوراکرنے والا ادارہ مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن میں تالا بندی

اقلیتوں کی تعلیمی زبوں حالی دور کرنے کے لیے قایم کئے گئے مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن کو مودی سرکار نے بند کردیا ہے۔ 35برس پہلے یہ ادارہ ان مسلم طالبات کی تعلیمی ضرورتوں کو پوراکرنے کے لیے قایم کیا گیا تھا جو اپنی غربت کے سبب تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہ جاتی ہیں۔ اس عرصے میں فاؤنڈیشن نے مسلم لڑکیوں کے کئی تعلیمی اداروں کی تعمیر وتشکیل میں نمایاں کردار ادا کیا اور اس کا کارپس فنڈ 1500کروڑ تک جاپہنچا، لیکن اب موجودہ حکومت کو ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ اقلیتوں کی تعلیمی پسماندگی دور کرنے والایہ ادارہ بھی ان کی ”منہ بھرائی“ کا مرتکبہے، اس لیے اس میں تالا ڈالنا ضروری ہوگیا ہے۔ فاؤنڈیشن کو بندکرنے کا نوٹس توگزشتہ 7/فروری کو ہی جاری کردیا گیا تھا، لیکن میڈیا میں اس کی خبریں اب شائع ہوئی ہیں۔
مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن درحقیقت مالی طورپر کمزوراقلیتی طلباء کو امداد فراہم کرنے والا ادارہ تھا اور اس کا اصل ہدف طالبات تھیں۔گز شتہ برس جب حکومت نے مولانا آزاد فیلو شپ پر پابندی لگائی تھی تو اسی وقت یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ حکومت یکے بعد دیگرے ان تمام اداروں اور اسکیموں کوختم کرے گی جو ماضی میں اقلیتوں کی تعلیمی اور سماجی پسماندگی دور کرنے کے لیے قایم کئے گئے ہیں۔ہم نے اسی وقت یہ اندیشہ بھی ظاہر کیا تھا کہ حکومت کا اصل ہدف اقلیتی امور کی مرکزی وزارت ہے، جو موجودہ سرکار کے سیاسی ایجنڈے کی راہ کا روڑا ہے۔ہوسکتا ہے کہ دیر سویر اس وزارت کو ہی ختم کرنے کا فیصلہ لیا جائے۔سبھی جانتے ہیں کہ اس وزارت کا قیام یوپی اے سرکار کے دور میں اس وقت عمل میں آیا تھا جب سچر کمیٹی کی رپورٹ منظرعام پر آئی تھی۔ منموہن سنگھ سرکار چاہتی تھی کہ اقلیتوں اور خاص طورپر مسلمانوں کو پسماندگی کی دلدل سے باہر نکالا جائے، لیکن موجودہ حکومت کا ایجنڈا اس کے برعکس ہے۔ اسی لیے آہستہ آہستہ ان تمام اداروں کو بند کرنے کی کارروائی کی جارہی ہے، جو اقلیتوں کی فلاح وبہبود اور ان کی تعلیمی پسماندگی دور کرنے میں مصروف ہیں۔ مولا نا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن کو بند کرنے کا فیصلہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ یہ اس حکومت کی کارکردگی ہے جو’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘کا نعرہ اچھال کر واہ واہی لوٹنے کی کوشش کرتی رہی ہے۔

مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن کا قیام دراصل 1988میں مولانا آزاد صدی تقریبات کے ذیل میں عمل میں آیا تھا، لیکن بعد کو جب اقلیتی امور کی وزارت قایم ہوئی تو اسے اس میں ضم کردیا گیا۔ یہ ادارہ اقلیتی طبقے کی طالبات کی تعلیمی ضرورتوں کی تکمیل میں اہم کردار ادا کررہا تھا، لیکن اسے اچانک بند کرنے کے اسباب معلوم نہیں ہوسکے۔اس فاؤنڈیشن کے تحت بیگم حضرت محل اسکالر شپ، خواجہ غریب نواز اسکل ڈیولپمنٹ جیسی اسکیمیں چلائی جارہی تھیں، جن سے ملک گیر سطح پر اقلیتی طالبات مستفید ہورہی تھیں اور وہ ان کے سہارے تعلیمی میدان میں کارہائے نمایاں انجام دے رہی تھیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ فاؤنڈیشن کو بند کردینے سے جہاں ایک طرف ان اسکیموں کا مستقبل تاریک ہوگیا ہے، وہیں فاؤنڈیشن میں کام کرنے والے ان چالیس سے زائد ملازمین کا مستقبل بھی تاریک ہوگیا ہے جو یہاں کنٹریکٹ پر کام کررہے تھے۔وزارت اقلیتی امور نے فاؤنڈیشن کے اثاثے، نقدی اور دیگرچیزیں حکومت کے خزانے میں جمع کرنے کی ہدایت دی ہے۔ فاؤنڈیشن کو بند کرنے کا حکم نامہ مرکزی حکومت کے انڈر سیکریٹری دھیرج کمار کے دستخطوں سے جاری ہوا ہے۔ واضح رہے کہ اس وقت فاؤنڈیشن کے پاس مجموعی طورپر1100/کروڑ روپے کا فنڈ دستیاب ہے جس میں تقریباً450 /کروڑ روپے اسے مختلف تنظیموں یا سرکاری اداروں کو ادا کرنے ہیں جبکہ 600/کروڑ روپے کا فنڈ اب سرکاری خزانے میں چلا جائے گا۔

اس سے قبل حکومت نے اقلیتی طبقوں کے مالی طورپر کمزور طلباء کی اعلیٰ تعلیم کے لیے شروع کی گئی مولانا آزاد فیلو شپ کو بند کرنے کا فیصلہ کیا تھا، جس کے خلاف ملک گیر سطح پر احتجاج ہوا تھا اوریہ معاملہ پارلیمنٹ میں بھی اٹھا تھا۔ اس وقت اقلیتی امور کی مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی نے لوک سبھا میں بتایا تھاکہ مولانا آزاد فیلو شپ چونکہ حکومت کی طرف سے اعلیٰ تعلیم کے لیے شروع کی گئی دیگر فیلو شپ اسکیموں سے متصادم ہے، اس لیے اسے ختم کیا جارہا ہے۔اس اسکیم کے تحت2014سے 2022کے درمیان چھ ہزار 722/امیدواروں کا انتخاب کیا گیا تھا، جنھیں اعلیٰ تعلیم اور ریسرچ کے لیے تقریباً 739/کروڑ روپے کی رقم جاری کی گئی۔ظاہر ہے اس فیلو شپ سے کافی تعداد میں تمام ہی اقلیتی طلباء نے فیض اٹھایا، مگر اس کے بند ہوجانے کے بعد ان میں کافی مایوسی پھیل گئی۔ اس سے قبل درجہ اوّل سے آٹھویں تک اسکالر شپ اور سول سروسز کی تیاری کرنے والے اقلیتی امیدواروں کے لیے’’نئی اڑان‘‘ اسکیم ختم کی گئی تھی۔ مولانا آزاد فیلوشپ مالی طورپر کمزور ان اقلیتی طلباء کو فراہم کی جارہی تھی جواندرون ملک کل وقتی طورپر ریسرچ کرتے ہیں۔ اس اسکیم کے تحت ایم فل، پی ایچ ڈی طلباء کو بھی ریسرچ کے لیے مالی مدد فراہم کی جاتی تھی۔
یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ حکومت کا بنیادی کام سماج کے ان طبقوں کی دست گیری کرنا ہے جو غربت اور مالی مشکلات کے سبب تعلیم کے میدان میں پچھڑگئے ہیں۔ آزادی کے بعد درج فہرست ذاتوں اور قبائل کے افراد کو تعلیمی اداروں اور سرکاری ملازمتوں میں ریزرویشن اسی لیے فراہم کیا گیا تھاکہ وہ زندگی دوڑ میں شامل ہوسکیں۔اس ریزرویشن کے مثبت نتائج برآمد ہوئے اور آج یہ پسماندہ ترین طبقات مین اسٹریم میں شامل ہوچکے ہیں۔قابل غور بات یہ ہے کہ آزادی کے بعد دلتوں اور دیگر پسماندہ برادریوں میں جو انتہائی درجہ پسماندگی تھی، ان کی جگہ اب مسلمانوں نے لے لی ہے اور وہ اس بات کے سب سے زیادہ مستحق ہیں کہ ان کی حددرجہ بڑھی ہوئی پسماندگی کو دور کرنے اور انھیں مین اسٹریم میں لانے کے لیے انقلابی اقدامات کئے جائیں، لیکن یہ حکومت ایسا کرنے کی بجائے ان کو پہلے سے حاصل شدہ مراعات پر ہی قینچی چلارہی ہے۔ نہ صرف یہ ہے کہ ابتدائی تعلیم کے حصول کو آسان بنانے کی اسکیمیں ختم کی جارہی ہیں بلکہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کو بھی دشوار بنایا جارہا ہے۔
سبھی جانتے ہیں کہ اقلیتی امور کی مرکزی وزارت کا قیام یو پی اے سرکار کے دور میں عمل میں آیا تھا اور اس کی بنیاد سچرکمیٹی کی چشم کشا رپورٹ تھی۔ دہلی ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس آنجہانی راجندر سچر کی قیادت میں بنائی گئی اس کمیٹی نے پورے ملک کا دورہ کر کے مسلمانوں کی تعلیمی،سماجی، معاشی اور سیاسی پسماندگی کا باریک بینی سے جائزہ لیا تھا۔اس کمیٹی نے یہ انکشاف کیاکہ مسلمان اس ملک کی سب سے زیادہ پسماندہ اقلیت ہیں، لہٰذا اس پسماندگی کو دور کرنے اور انھیں مین اسٹریم میں لانے کے لیے انقلابی قدم اٹھائے جانے چاہئیں، لہٰذااس وقت کے وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ جو خود سکھ اقلیت سے تعلق رکھتے تھے، سچر کمیٹی کی سفارشات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اقلیتی امور کی وزارت قایم کی، جس کے تحت مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن جیسے اداروں کو بھی لیا گیا۔اس کے دائرہ کار میں مسلمانوں کے علاوہ، عیسائی، جین، پارسی اور سکھ اقلیتوں کو لایا گیا۔ایسا اس لیے کیا گیا تاکہ حکومت پر مسلمانوں کی ”منہ بھرائی“ کا الزام نے لگ سکے۔حالانکہ دیگر اقلیتیں تعلیمی، معاشی،سماجی اور سیاسی میدانوں میں بہت آگے ہیں، لیکن اس کے باوجود اقلیتی امور کی بیشتر اسکیموں کا فائدہ ان ہی کو پہنچایا گیا۔لیکن بی جے پی نے اسے”مسلمانوں کی منہ بھرائی“ سے تعبیر کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اقتدار سنبھالنے کے بعد آہستہ آہستہ اقلیتی امور کی وزارت کے تحت چلنے والے اداروں اور اسکیموں کو ختم کیا جارہاہے، جس کا تازہ ثبوت مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن ہے جہاں اچانک تالا ڈال دیا گیاہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں