صحافت کی دنیا میںمختلف تنظیموں سے وابستگی اور اپنی خدمات کے سبب بین الاقوامی سطح کے معروف فوٹو جرنلسٹ رضا حیدر نے ےپنی منفرد پہچان بنائی ہے۔اس لئے وہ میدان صحا فت میں محتاج تعارف نہیں۔
تحریر: راشد قمر
رضا حیدر سینئر فوٹو جرنلسٹ، فوٹو گرافرز کی تنظیم فوٹوگرافرز ایسوسی ایشن آف پاکستان (پیپ) کے سابق صدر، پی ایف یو جے، کراچی پریس کلب ، آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی ودیگر صحافتی وسمافی تنظیموں کے رکن و روح رواں رضا حیدر کہتے ہیں کہ جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ رہنے میں ہی کیمرے اور قلم کی بقا ہے
رضا حیدر سینئر صحافی و فوٹو جرنلسٹ، سابق صدر پیپ پی ایف یو جے، کراچی پریس کلب، آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے رکن اور اور دیگر کئی سماجی تنظیموں کے روح رواں ہیں
انتہائی نا مساعد حالات کے باوجود انھوں نے مواقع ملنے کے باوجود ہمیشہ رزق حلال کمانے پر توجہ دی، وہ خوش حال تو نہیں رہے مگر محتاج بھی کبھی کسی کے نہ رہے، اللہ نے انھیں قناعت کی دولت سے ہمیشہ مالا مال رکھا۔ ایک حسرت البتہ ان کے دل میں ہمیشہ رہی، اپنا گھر بنانے کی حسرت ، وہ اپنا گھر نہ بنا سکے۔
انھوں نے روزنامہ نواۓ وقت میں چالیس سال خدمات سرانجام دیں۔ انھیں امید تھی کہ وہ جب نوائے وقت کراچی سے رٹائر ہوں گے تو اپنا گھربنانے کے ضرور قابل ہوجائیں گے مگر افسوس کے انھیں روزنامہ نوائے وقت کی انتظامیہ نے ان کی چالیس سال کی خدمت کا صلہ دینا تو کجا ان کے واجبات بھی ادا نہ کیے، انتہائی کوشش کے باوجود بھی نوائے وقت انتظامیہ کی جانب سے انھیں دیگر واجبات ، گریجویٹی اور پراویڈنٹ فنڈ نہ مل سکا جس کے وہ حق دار تھے۔
رضا حیدر وہ شخصیت ہیں جو کسی تعارف کے محتاج نہیں ، وہ سینئر صحافی اور فوٹو جرنلسٹ ہیں، وہ کراچی پریس کلب، پاکستان آرٹس کونسل کراچی، پاکستا ن فیڈریشن یونین آف جرنلسٹ ، سابق صدر فوٹوگرافرز ایسوسی ایشن آف پاکستان (پیپ)،چیئرمین پاکستان میڈیا اینڈ فوٹو جرنلزم ہیں۔ رضا حیدرا کی بنائی ہوئی تصویریں ، خبریں انٹرویوز اور مضامین نوائے وقت کی زینت بنتے رہے ہیں
انھوں نے 1972 میں آغا خان اسکول قاسم آباد سے میٹرک اور گورنمنٹ کالج ناظم آباد سے انٹرمیڈیٹ کیا۔ مسرور احسن ،جسٹس حسن فیروز اختر میر ،احمد دارا ان کے سینیر ساتھیوں میں سے تھے۔ اسی دوران میں طلبہ سیاست میں حصہ لینے کا موقع ملا اور وہ اپنی کلاس کے سی آر منتخب ہوئے۔
رضا حیدر نے بطور فوٹوگرافر اپنا سفر طالب علمی کے زمانے ہی سے شروع کردیا تھا۔ انھوں نے 1974میں ہفت روزہ الانسان سے صحافت کا آغاز کیا۔ 1975 میں علامہ اقبال کی صد سالہ پیدائش اور 1976 میں قائداعظم کی صد سالہ پیدائش کی تقریبات کی کوریج کی۔
اس زمانے میں طلبہ سیاست پر پابندی نہیں تھی۔ کالجوں اور یونیورسٹیز میں طلبہ تنظیمیں ہوا کرتی تھیں اور کالجوں میں اسٹوڈنٹ ویک منائے جاتے تھے، جس کی انھوں نے بھرپور کوریج کی جو تمام اخبارات میں شائع ہوئی۔ اس کے علاوہ انھوں نے نجی سطح پر سوشل، کلچرل، شوبز، اسپورٹس اور شادی بیاہ کی تقریبات میں اپنی فوٹوگرافری کے جوہر دکھائے۔
دستگیر کراچی میں انھوں نے فوٹو پیراڈائز کے نام سے اپنا فوٹو اسٹوڈیو قائم کیا تھا جسے نوائے وقت جوائن کرنے کے بعد بند کرنا پڑا۔
ان کا صحافتی کیرئیر کا آغاز ماہنامہ الانسان اخبار سے ہوا۔ اپنی ماہرانہ صلاحیتوں کے بل پر وہ 1979 میں روزنامہ نواۓ وقت اخبار سے وابستہ ہوے اور 2018 میں اسی ادارے سے رٹائر ہوئے۔ ایک سوال کے جواب میں رضا حیدر نے بتایا کہ میں نے 1980 میں ہی مضامین و کالم لکھنا شروع کردیا تھا، انھوں نے سینئر صحافی حسن علی بلگرامی کی رہنمائی میں کیمرے اور قلم کے ساتھ اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیا یوسف خان مرحوم اور نادر شاہ عادل کو وہ اپنے اساتذہ میں شمار کرتے ہیں۔
حصول علم کے سفر میں جناب مجید نظامی پروفیسر حسن عسکری اور جناب پروفیسر ذکریا ساجد، پروفیسر توصیف احمد کا ایک اہم کردار رہا ہے جب انھوں نے نوائے وقت جوائن کیا تو ان کی تعلیم صرف انٹرمیڈیٹ تھی۔ نوائے وقت میں ملازمت کے دوران ہی انھون نے گریجویشن کیا اور پھر ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کیا۔ صحافت میں اچھے قلم کاروں اور فوٹوگرافروں سے سیکھنے کو بہت کچھ ملا۔
رضا حیدر کہتے ہیں جب انھوں نے صحافت کا آغاز کیا تو بلیک ان وائٹ فوٹوگرافی کا زمانہ تھا اور اخبارات بلیک اینڈ وائٹ چھپا کرتے تھے۔ 1982 سے کراچی کے حالات بہت خراب رہے ،ملک میں مارشل لا تھا سیاسی اور مذہبی کشیدگی میں کام کرنا بڑا مشکل ہوتا تھا۔ سیاسی جلسے جلوس مظاہرے ہنگامے ہوں یا بم دھماکے رنگ و نور کی محفلیں ہوں بارش سیلاب ہوں زلزلے ہوں یا اسپورٹس ایونٹس ، ہرجگہ انھیں ایک اچھی تصویر اور اچھی خبر کے حصول کے لیے اسپاٹ پر موجود رہنا پڑتا تھا۔
بچپن کے دوستوں میں سعید الحسن رضوی ہر اچھے برے وقت کے ساتھی جو کہ کچھ عرصہ قبل ساتھ چھوڑ کر رب کے حضور پیش ہوگئے،
مشکل ترین حالات اور کم آمدنی کے باوجود انھوں نے اپنی اولاد کو اعلی تعلیم سے آراستہ کیا وہ کہتے ہیں کہ مجھے آج بھی یاد ہے میرے بڑے بھائی نے1973 میں امریکا سے کیمرہ بھیجا۔ اس وقت قاسم آباد میں باغ ہوا کرتے تھے، ہم وہاں جاکر تصویریں کھنچتے تھے اور پھر سب دوست چندہ جمع کرکے ان کے پرنٹ بنواتے تھے۔ کیا سنہرا دور تھا۔
1979 میں جب روزنامہ نوائے وقت کا کراچی سے اجرا ہوا تو ریذیڈینٹ ایڈیٹر ہمایوں ادیب نے انھیں بلاکر گیارہ سو روپے ماہنامہ پر بطور فوگرافر نوکری پر رکھا، نامساعد حالات کے باوجود رزق حلال ہمیشہ ترجیح دی۔ 2018 میں ریٹائر کیا گیا مگر ان کی طویل خدمات کا صلہ اب تک نہ مل سکا ان کی گریجویٹی اور ذاتی پراویڈنٹ فنڈ جس کے وہ حق دار ہیں اب تک ادا نہیں کیا گیا۔
سینئر صحافی رضا حیدرکہتے ہیں کہ مجھے فوٹوگرافی سے دلی لگاؤ ہے۔ کچھ کر گزرنے کے بھوت ان پر سوار تھا۔ اسی شوق نے انھیں دیگر فوٹوگرافرز میں ممتاز کردیا ۔ سن 2000 اور 2002 میں انھیں فوٹوگرافرز ایسوسی ایشن آف پاکستان (پیپ) کے صدر کا اعزاز ملا ، اس پلیٹ فارم سے انھوں نے فوٹو گرافرز کی بہتری کے لیے سیمینارز، ورکشاپس اور فوٹو گرافی کی نمائشوں کا اہتمام کیا۔ اس موقع پر انھوں نے بروشر اور سوینئر بھی چھا پے جس کو بڑی پذیرائی ملی۔
فوٹوگرافی کی فیلڈ آسان نہیں ہے۔ اس میں کئی اتار چڑھاؤ اور نازک موڑ آتے ہیں ، مگر مستقل مزاجی ہی فوٹوگرافرز کو اوروں سے بہتر پیش کرنے کی ہمت فراہم کرتی ہے۔ صحافت میں نوائے وقت ایک اکیڈمی کی طرح تھا ۔
انھوں نے 45 سال قبل اس صحافت اور فوٹو گرافی کا پیشہ اپنایا، اس راستے میں کئی کھن اور مشکل حالات آئے مگر انھوں نے ہمت نہیں ہاری اور کامیابی حاصل کرنے کی جد وجہد جاری رکھی، آج انھیں صحافت کی قد آور شخصیات کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کا شرف حاصل ہے۔
انھوں نے اپنے نئے ساتھیوں کو نصیحت کی کہ اپنے سینئرز کی عزت و احترام میں کوئی کمی نہ آنے دیں کیونکہ آج ہم جس مقام پر ہیں صرف اپنے سینئرز اور صحافی اساتذہ کی بدولت ہیں۔ اپنی پیشہ ورانہ صحافتی ذمے داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے لیے جدید آلات سے استفادہ کریں۔ سوچ کے دائرے کو وسیع کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ تعلیم حاصل کریں، حصول علم کےلیے عمر کی قید نہیں ہوتی۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ جو آج جو نیئر ہیں کل جب وہ سینئرز کے مقام پر پہنچیں گے تو کم از کم انہیں ورثے میں تعلیم یافتہ صحافتی قیادت تو ملے گی۔ جیسے آج میں جس مقام پر ہوں اس میں میرے والدین سمیت میرے روحانی صحافی اساتذہ کا بہت اہم کردار ہے ۔
انھوں نے ہفت روزہ ایف آئی آر کے ایڈیٹر راشد قمر کی صحافتی حلقوں میں سینئر صحافیوں کے لیے خصوصی ایڈیشنز کے سلسلوں کے اقدام کو سراہایا
ماضی کے اہم واقعات کی کوریج کا احوال
1977 میں انتخابی مہم کے دوران شدید ہنگامہ آرای ہوئی، الیکشن والے دن لیاقت آباد10 نمبر میں انجمن اسلامیہ اسکول کے پولنگ اسٹیشن پر پیپلز پارٹی اور قومی اتحاد کے کارکنان کے درمیان تصادم ہوگیا، اس موقع پر انتخابی جائزے کےلیے دورے پر آۓ ہوۓ جناب اکبر لیاقت علی خان اور ان کی بیگم اس تصادم میں پھنس گئے تھے، بیگم صاحبہ کو انھوں نے اپنی سوزوکی موٹر سائیکل پر بیٹھا کر وہاں سے باحفاظت نکالا اور محفوظ مقام پر پہنچایا۔
ٹیپونامی ایک شخص نے پاکستانی جہاز اغواکرلیا، اس کیس کی تصویر کشی پر دنیا حیران تھی جوکہ ٹی وی سے بنائی تھیں۔
1983 میں ا کراچی یونیورسٹی میں اے پی ایم ایس او اور اسلامی جمعیت طلبہ کے درمیان پہلی دفعہ تعلیمی ادارے میں کلاشنکوف و راکٹ کا استعمال ہوا، اس تصادم کے دوران نھوں نے براہ راست کوریج کی
1985 میں سرسید گرلز کالج کی طالبہ بشرا زیدی ٹریفک حادثے میں ہلاک ہوگئیں ان کی ہلاکت پر کراچی میں شدید ہنگامے پھوٹ پڑے ان ہنگاموں کی براہ راست کوریج کی
کرکٹ ورلڈ کپ کی کوریج۔ اور قومی اور بین الاقوامی سپورٹس کی کوریج
جونیجو صاحب کے دور میں صدر بم دھماکے اور بے شمار ہلاکتوں کی کوریج
سہراب گوٹھ آپریشن اور سانحہ علیگڑھ کی کوریج
بے نظیربھٹو اور نواز شریف کے احتجاجی ٹرین مارچ۔ 1992 میں کراچی آپریشن کی کوریج
جنرل ضیا الحق کے فضائی حادثے کے بعد تبدیل شدہ سیاسی صورتحال میں الیکشن کی کوریج
اغوا شدا روسی طیارے اور پین ایم طیارہ جسے فلسطینیوں نے کراچی ایئرپورٹ پر اغوا کیا تھا جس میں 50 افراد کی ہلاکتیں ہوئیں اس کی کوریج
1996 میں مرتضیٰ بھٹو کا کراچی میں سانحہ اور لاڑکانہ میں سوئم کے موقع پر ہنگامہ آرائی کی تصویر کشی
بے نظیر بھٹو کے ہمراہ ہیلی کاپٹر میں الیکشن کوریج، 2005 کشمیر اور شمالی علاقہ جات میں ہولناک زلزلے کی کوریج
2010 میں سیلاب سے متاثرہ افراد کی کوریج ، آواری ٹاور ہوٹلزاور پاک امریکن کلچر سینٹر ڈبل بم بلاسٹ کی کوریج جس میں کئی فوٹوگرافرز بھی زخمی ہوئے
اس کے علاوہ محترمہ نصرت بھٹو ، بے نظیر بھٹو، پیر صاحب پگارہ، نواب زادہ نصراللہ خان ، محمد خان جونیجو، میاں نواز شریف، غنوی بھٹو، معراج محمد خان، علامہ ساجد نقوی، سابق وزیر محمد علی ، لیاقت جتوئی ، اداکار دلیپ کمار۔ اداکار محمد علی اور دیگر ملکی اور غیر ملکی اہم شخصیات کے انٹرویوز اور تصاویر ان کے کریڈٹ پر ہیں