ڈاکٹرظفر دارک قاسمی
ہندوستان کے مسلمانوں کی خاصیت کی بات ہوتی ہے تو سب سے پہلے ملک کی رگوں میں دوڑنے والی مذہبی رواداری کی تاریخ روشن ہوجاتی ہے ،جس کے سبب ہندوستانی مسلمان بھی خوداس سانچے میں ڈھالنے میں فخر محسوس کرتے ہیں ،یہ کوئی یک طرفہ کہانی نہیں،اگر ہندوستانی مسلمان خاص ہیں تو اس میں ملک کے ہندووں کی خوبی کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے۔ جنہوں نے ہر دور میں گنگا جمنی روایات کو گلے لگایا۔ سیاسی ماحول کے برعکس فرقہ وارانہ ٹکراو اور خلیج کی مخالفت کی ۔ اس ملک میں آج مسلمان مل جل کر رہنے کا عادی ہے،قانون کے تحت زندگی گزارنے کو پسند کرتا ہے اور مذہبی منافرت سے دور ہے تو اس کی ایک بڑی وجہ گنگا جمنی تہذیب کی مضبوط جڑیں ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستانی مسلمان مل جل کر زندگی گزارنے کے عادی ہیں ،جو ہر مذہب کی رسموں اور روایات کا احترام کرتے ہیں ۔ تشدد سے دور رہتے ہیں اور شدت پسند سوچ کو ہمیشہ سے مسترد کرتے رہے ہیں ۔
ہندوستان جیسے تکثیری سماج میں اور موجودہ وقت میں ہندو مسلم تعلقات کی افادیت سے انحراف نہیں کیا جاسکتا ہے، اگر ہم ملک کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں کے خمیر میں ہندو مسلم تعلقات کی خوشگوار روایتیں شامل ہیں۔ سماجی ، معاشی اور سیاسی اعتبار سے با ہم دونوں قو میں ہمیشہ سیر و شکر رہی ہیں۔ سرزمین ہند کو یہ اولیت و فوقیت حاصل رہی ہے کہ ملکی نظام اور سماجی اداروں کی تنظیم و ترتیب میں ہندو اور مسلمانوں نے مل کر بنیادی کردار ادا کیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ کثیر لسانی اور متنوع افکار کے باوجود کبھی بھی کسی کو نہ کسی کے مذہب سے شکایت ہوتی تھی اور نہ کسی کو کسی زبان و تہذیب سے حتی کہ ہندو راجاؤں کے دور میں جب بھی مسلم کمیونٹی پرظلم وتعدی کو اختیار کیا گیا یا پھر مسلم حکمرانوں کے زمانہ میں ہندوؤں کے ساتھ ناروا سلوک کی آہٹ ہوئی تو ان شر پسند عناصر کے خلاف فوری کارروائی کی گئی اور مظالم کا سد باب بھی کیا گیا۔ سطور ذیل میں راقم ان روایات واقدار کو پیش کرے گا جو ہندو مسلم اتحاد کے لیے مشعل راہ ہیں۔
ہندوؤں کا مسلمانوں سے مشفقانہ برتاؤ
شیخ محمد اکرام نے اپنی کتاب ” آب کوثر میں مستند حوالوں سے لکھا ہے: ہندوستان کے ساحل پر عربوں کی کئی بستیاں قائم تھیں۔ حجاج بن یوسف جب عراق کا گورنر مقرر ہوا تو ہاشمیوں کی ایک بڑی جماعت یہ علاقہ چھوڑ کر ہندوستان آگئی۔ ان میں سے جو لوگ مغربی ساحل (بالخصوص کو نکن کے کنارے) پر آ باد ہوئے ان کی اولاد کو نوائت ( نووارد) یا نوائط ، اور جولوگ راس کماری کے مشرق میں آباد ہوئے اور یہاں کی تامل عورتوں سے شادی کر کے ایک مخلوط قوم کے بانی ہوئے۔ انہیں بی کہتے ہیں۔ چونکہ اس زمانے میں ہندو جہاز رانی کو پاپ سمجھتے تھے، اس لیے ان لوگوں نے جہاز رانی اور تجارت سے اپنے نئے وطن میں عزت و وقار حاصل کر لیا۔ نوائط بالعموم شافعی مذہب کے پیرو ہیں اور ان میں سے کئی بڑے عالم پیدا ہوئے ہیں۔ بالخصوص مخدوم علی مہاتی جن کا مزار بمبئی کے قریب قصبہ مہائم میں ہے۔ ہندوستان کے بڑے علماء میں شمار ہوتے ہیں۔ (1) جو مسلمان ساحل گجرات پر آباد تھے ان کے متعلق ، عرب سیاح سلیمان اور مسعودی نے لکھا کہ ہے کہ یہاں دونوں قوموں کے باہم تعلقات نہایت خوشگوار تھے اور یہاں کے ہندو راجاؤں کو مسلمانوں سے محبت تھی۔ شیخ محمد اکرام نے اپنی تصنیف آب کوثر میں بھی عوفی ( یہ التمش کے دور میں ہندوستان آیا تھا) کی کتاب “جامع الحكايات ولامع الروايات“ کے حوالے سے پیشن (پٹن ایک وقت میں گجرات کے راجاؤں کا دارالحکومت ہوا کرتا تھا جسے نہر والہ پین کہتے ہیں۔
ہندو راجاؤں کا مسلمانوں کے ساتھ حسن سلوک کو ذکر کیا ہے: وہ لکھتا ہے
( یعنی عوفی اپنی کتاب جامع الحکایات ولامع الروایات میں ایک مرتبہ کھنہائت جانے کا اتفاق ہوا جو سمندر کے کنارے ایک شہر ہے اور وہاں دیندار مسلمانوں کی ایک جماعت آباد ہے۔ یہاں میں نے سنا کہ راجا جنگ کے زمانے میں مسجد تھی۔ اس کے ساتھ ایک مینار تھا جس پر چڑھ کر مسلمان اذان دیا کرتے تھے۔ پارسیوں نے ہندوؤں کو بھڑکا کر مسلمانوں سے لڑوایا ۔
امام نے یہ حال دیکھ کر خود ایک دن موقع پا کر جبکہ راجا ہاتھی پر سوار ہو کر باہر جارہا تھا۔ ایک نظم کی صورت میں سارا واقعہ سنایا۔ راجہ نے اس پر اپنے درباریوں سے تو کچھ نہ کہا لیکن انہیں اطلاع دیئے بغیر خود بھیس بدل کر کھنبات گیا اور سب باتوں کی تحقیق کی۔ واپس آکر اس نے دربار منعقد کیا۔
اپنی تفتیش کا حال بتایا اور حکم دیا کہ پارسیوں اور ہندوؤں میں سے ان سب کو جو مسلمانوں پر ظلم کے مرتکب ہوئے تھے سزادی جائے۔ اور مسلمانوں کو ایک لاکھ بالوٹرا ( گجراتی سکے) تاوان ملے تا کہ وہ مسجد اور مینار نئے میرے سے تعمیر کریں۔
ایک اور خصوصیت یہاں کے راجہ کی تھی وہ یہ مسلمانوں کے معاملات ان کا اپنا آدمی فیصلہ کرتا تھا جسے ہنر مند کہا جاتا تھا۔ بڑے شہروں میں جہاں مسلمانوں کی زیادہ آبادی تھے ہندو را جاؤں نے سرکاری طور پر ہنر مند متعین کر رکھے تھے۔(۱) مسلمانوں کے ساتھ ہندوؤں کی رواداری اور مشفقانہ برتاؤ کی ایک مثال شیخ محمد اکرام نے تحفۃ المجاہدین اس کتاب کو وسط عہد اکبری میں شیخ زین الدین نے اس وقت تصنیف کیا جب پرتگیز مالا بار کے مسلمانوں پر ظلم وتعدی اپنا رہے تھے۔ اس کتاب کے پہلے تین ابواب میں جہاد کے احکام، مالا بار میں اشاعت اسلام کا ذکر اور یہاں کی ہندو اقوام کی عادات و مراسم کا بیان ہے۔
چوتھے باب میں پرتگیزیوں کے مظالم کا تفصیلی ذکر موجود ہے ) کے حوالے سے لکھا ہے: تیسری صدی ہجری میں جب مسلمان درویشوں کی ایک جماعت لنکا میں حضرت آدم کے نقش قدم کی زیارت کے لیے جارہی تھی تو باد مخالف ان کا جہاز مالا بار کے شہر کد نکلور (کدنگانور ) کے ساحل پر لے گئی۔ وہاں کے راجا میمورن (سامری) نے ان کی بڑی آؤ بھگت کی۔ ان سے ان کے مذہب کا حال دریافت کیا اور ان کے بیان سے اتنا متاثر ہوا کہ جب زائرین لنکا سے واپس آئے تو وہ اپنی حکومت اپنے سرداروں کے سپرد کر کے خود ان کے ساتھ عرب چلا گیا۔
وہاں اس کی وفات ہوگئی لیکن مرنے سے پیشتر اس نے عرب درویشوں سے کہا کہ ملیبار میں اسلام پھیلانے کی صورت یہ ہے کہ تم لوگ ملیار سے تجارت اور سوداگری کا کام شروع کرو، اور اپنے امراء کے نام ایک وصیت نامہ لکھ کر دیا کہ ان پردیسی سوداگروں سے لطف و محبت کا سلوک کرنا۔ چنانچہ انہوں نے نو وار د عربوں سے یہی سلوک کیا اور وہاں کثرت سے عرب سودا گر آنے جانے اور رہنے سہنے لگے ۔ اسی طرح ایک اور واقعہ ابن بطوطہ کے حوالے سے شیخ محمد اکرام نے لکھا ہے
جب ابن بطوطہ نے آٹھویں صدی ہجری میں کھنبائت سے چین کا سفر کیا۔ تو اس نے مالابار کے ساحل پر جابجا مسلمانوں کی معقول آبادیاں دیکھیں۔ ضلع کاروار صو بہ بمبئی کی قدیم بندرگاہ ہونا در میں سلطان جمال الدین ایک ہندو راجہ کی طرف سے حکمراں تھے اور اس شہر میں کئی مسلمان عالم اور اسلامی مدارس موجود تھے ۔ منگلور میں مسلمانوں کی آبادی چار ہزار کے قریب تھی ۔ کالی کٹ کا راجہ ہند و تھا، لیکن سوداگروں اور تاجروں کا سردار مسلمان تھا اور بحری تجارت میں انہیں بڑا دخل تھا۔ (۱) معبر ایک ساحلی خطہ ہے۔
اس کا وقوع مشرقی ساحل پر راس کماری کے شمال مشرق کی طرف کا رومنڈل پر ہے۔ جسے مجبر کہا جاتا ہے۔ اس علاقے میں مسلمانوں کی قدیم بستیاں تھیں ۔ سب سے اہم اور پرانی بسنتی نے ولی صوبہ مدراس کا شہر ” کیا لا پٹم ہے۔ کیالا پٹم کی آبادی گزیٹر کی رپورٹ کے مطابق تیرہ ہزار کے قریب تھی اور اس میں مسلمانوں کی اکثریت تھی۔ مشہور ہے کہ پانڈیا خاندان کے راجاؤں نے نو وار د عربوں کو چار میل لمبا اور ڈیڑھ میل چوڑا علاقہ دیا اور یہاں انہوں نے اپنی بستیاں آباد کیں۔
اور یہاں کی مقامی عورتوں سے شادیاں کیں اور آہستہ آہستہ اس علاقے میں کافی اثر حاصل کر لیا۔ نیز مسلمان ضلع ”ٹنے ولی کی کل آبادی کا چھ فی صدی ہیں اور تین تحصیلوں میں دس فی صدی ہیں۔ اس علاقے میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے تعلقات خوشگوار ہیں۔ پوٹن پودار کی مسجد کی نسبت لکھا ہے کہ وہاں ہندو زائرین کی تعداد مسلمانوں سے زیادہ ہے۔ شیخ اکرام نے یہ بھی لکھا ہے کہ یہاں کی مزارات کا ہند و احترام کرتے ہیں اور مسجدوں کے تبرکات بڑی شوق سے لیتے ہیں۔(1)
مذکورہ شواہد و روایات کی روشنی میں یہ پورے وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ قدیم ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ ہندو راجاؤں نے نہ صرف حسن سلوک اور توازن و اعتدال کا رویہ اختیار کیا بلکہ انہیں رہنے سہنے اور اسلامی ثقافت کے فروغ کے مواقع بھی عطا فرمائے۔ اس طرح ان کو تجارت کے مواقع بھی فراہم کئے۔ ان حقائق سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ قدیم ہندوستان میں دونوں قومیں باہم مل کر رہتی تھیں۔ افکار و عقائد اور تہذیب و ثقافت کے متغایر ہونے کے باوجود دونوں برادریوں کے خوشگوار تعلقات کا پتہ چلتا ہے۔ آج بھی ہمیں ضرورت ہے کہ ہم ماضی کی روشن و تابناک روایتوں کو فروغ دیں اور ملک میں ایسے خطوط متعین کریں جن سے باہم طبقات انسانی کے رشتے مستحکم ہو سکیں۔
مسلمانوں کا ہندوؤں کے ساتھ حسن سلوک
محمد بن قاسم نے ہندوستان میں اے لے ھ میں قدم رکھا اس پر عام طور سے یہ الزام ہے کہ اس نے سندھ کے ہندوؤں کے ساتھ برا سلوک کیا۔ اس طرح کی روایتیں بیچ نامی وغیرہ میں ملتی ہیں۔ ان روایتوں کے متعلق اہل علم نے اطمینان کا اظہار نہیں کیا ہے۔ لہذا محمد بن قاسم پر ہندوؤں کے ساتھ زیادتی اور ظلم کا الزام لگا نا مناسب نہیں ہے کیونکہ مورخین نے جو واقعات درج کئے ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس نے تمام طبقات کے ساتھ برابری کا رویہ اپنایا۔ اس بابت شیخ اکرام نے اپنی کتاب ” آب کوثر میں لکھا ہے:
اہل سندھ سے بڑی نرمی کا برتاؤ کیا۔ جن لوگوں نے اطاعت قبول کر لی ، انہیں کسی طرح تنگ نہیں کیا بلکہ ہر طرح امان دی۔ ہندوؤں کو وہ مراعات عطا کیں جو بعض فقہاء کے نزدیک اہل کتاب کے لئے مخصوص تھیں اور ایسے نظم ونسق کی بنیاد رکھی جو پہلے راجاؤں سے یقینا بہتر تھا۔ شیخ محمد اکرام نے داہر کے باپ راجہ بیچ کے متعلق ایک اقتباس ڈاکٹر تارا چند کی معروف کتاب تاریخ اہل ہند سے نقل کیا ہے۔ بچ ایک متعصب حاکم تھا۔ اس نے اپنی رعایا کے ایک حصے کے لئے سخت جابرانہ قوانین نافذ کیے۔ انہیں ہتھیار رکھنے، ریشمی کپڑے پہنے ، گھوڑوں پر زین ڈال کر سوار ہونے کی ممانعت کر دی اور حکم دیا کہ وہ ننگے پاؤں اور ننگے سر اور کتوں کو ساتھ لیکر چلا کریں۔
محمد بن قاسم کے متعلق وہ لکھتے ہیں، مسلمان فاتح نے مفتوحوں کے ساتھ عقلمندی اور فیاضی کا سلوک کیا۔ مالگزاری کا پرانا نظام قائم رہنے دیا۔ قدیمی ملازموں کو برقرار رکھا۔ ہند و پجاریوں اور برہمنوں کو اپنے مندروں میں پرستش کی اجازت دی اور ان پر فقط ایک خفیف سا محصول عائد کیا جو آمدنی کے مطابق ادا کرنا پڑتا تھا۔ زمینداروں کو اجازت دی گئی کہ وہ برہمنوں اور مندروں کو قدیم ٹیکس دیتے رہیں۔ آگے لکھا ہے کہ محمد بن قاسم نے پرانے نظام کو حتی الوسع تبدیل نہ کیا۔ راجا داہر کے وزیر اعظم کو وزارت پر برقرار رکھا اور اس کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے تمام نظام سلطنت ہندوؤں کے ہاتھ میں رہنے دیا۔ عرب فقط فوجی اور سپاہیانہ انتظام کے لئے تھے۔ مسلمانوں کے مقدمات کا فیصلہ قاضی کرتے تھے ، لیکن ہندوؤں کے لئے ان کی پنچائتیں بدستور قائم رہیں ۔ محمد بن قاسم کی یہی رواداری اور انصاف تھا جس کی وجہ سے اس کی مخالفت کم ہوئی ۔ کئی شہروں نے خود بخود اطاعت قبول کر لی۔ علامہ بلاذری نے تو فتوح البلدان میں یہاں تک لکھا ہے کہ جب محمد بن قاسم قید ہو کر عراق گیا تو ہندوستان کے لوگ روتے تھے اور کیرچ (علاقہ کچھ ) کے لوگوں نے تو اس کا مجسمہ بنایا ۔ (۱) محمد بن قاسم کے حسن سلوک اور توازن و اعتدال نے یقیناً وہاں کی ہندو رعایا پر مثبت اثر ڈالا ہوگا جس کی وجہ سے یہاں کی ہندو رعایا اس کے متوازی کارناموں کو پسند کرتی تھی۔ آج بھی اسی حسن سلوک اور مثبت کردار کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔
بھگتی تحریک لودھیوں کے دور حکومت (۱۳۲۱-۱۵۲۶ء) میں بھگتی تحریک کا ظہور ہوا اس تحریک کے متعلق شیخ محمد اکرام نے درج ذیل تفصیلات بہم پہنچائی ہیں۔ ہندوستان میں کئی ایسے بزرگوں کا ظہور ہوا جنہوں نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے عقائد کو ملانا چاہا اور ایسے فرقوں کا آغاز کیا جن میں دونوں مذہبوں کے عقائد شامل تھے۔ ان بزرگوں میں کبیر سب سے پہلے تھے۔ جو ۱۴۴ء میں پیدا ہوئے اور ۱۵۱۸ء میں وفات پائی۔ تذکرہ اولیاء میں انہیں شیخ کبیر جولا ہہ قدس سرہ لکھا ہے اور کہا ہے کہ یہ حضرت تقی سہروردی کے خلیفہ تھے اور تمام موحدان وقت سے ممتاز تھے۔ چند روز رامانند بیراگی کی خدمت میں رہ کرفن شاعری زبان ہندی میں حاصل کی۔ ہندی زبان میں پہلے معرفت انہوں نے بیان کی۔ ان کی تقلید گرونانک نے کی، کبیر صاحب نے بعد اس کے حضرت شیخ بھی کا چشتی کی خدمت میں رہ کر خلافت حاصل کی اور ہندو مسلمان دونوں گروہ آپ کے معتقد تھے۔ ہر ایک آپ کو اپنے میں شمار کر لیا کرتا تھا اور جو اہل ہنود آپ کے سلسلے کے ہیں وہ کبیر منتی کہلاتے ہیں۔ طریق ان کا اذکار و اشغال میں بالکل اہل اسلام کے مطابق ہے۔ مگر الفاظ کا فرق ہے۔ ان چیزوں کی وجہ سے اسلام نے جواثر ہندو عقائد پر کیا اس کا ذکر تارا چند کی کتاب تاریخ ہند کے حوالے سے شیخ اکرام نے ایک اقتباس نقل کیا ہے۔
جنوب میں جہاں مسلمان پہلے بسے، ہندوؤں کے مذہبی و معاشرتی خیالات میں تبدیلیاں شنکر اچاریہ، شیو اور وشنو مت کے سادھوؤں کی وجہ سے تھیں۔ رامانج نے ان کا خاص اسلوب ترتیب دیا۔ اور بھگتی تحریک کو اس کے فلسفے سے ایک بنیا دل گئی۔ اس کے پیرؤں نے اس تحریک کو تمام ہندوستان میں پھیلا دیا۔
جھلتی یا پریم اور عبادت کا مذہب جو آہستہ آہستہ شمال اور جنوب کے تمام ہندوؤں میں پھیل گیا۔ ایک لحاظ سے اپنشد اور بھا گوت گیتا کی تعلیمات پر مبنی تھا۔ لیکن ازمنہ وسطی میں اس کی مقبولیت اسلامی اثرات کی وجہ سے ہوئی۔ بھگتی تحریک کے پرانے پہلوؤں پر اسلامی اثرات کی وجہ سے زیادہ زور دیا جانے لگا اور کئی پہلو تو اسلام سے اخذ کیے گئے تھے۔
اس کے علاوہ مولانا نجیب اشرف کے حوالے سے لکھا ہے کہ اشاعت اسلام کا کام صوفیوں نے (جو باہمہ وبے ہمہ کی زندہ مثال، وسیع المشرب آزاد خیال اور روادار ہوتے تھے ) شروع کیا۔ ہندوؤں نے بھی اس رنگ کو اختیار کر لیا۔ رامانند، گرونانک ، سوامی چینیہ اس قسم کے گرد تھے۔ انہوں نے نہ صرف’ ویدانتی تو حید اور متصوفانہ ” فنافی اللہ کے اصول کو عام کر دیا۔ بلکہ اپنی برادری میں داخل ہونے کے لئے ہندوو مسلمان کی قید بھی اٹھادی اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے معتقدین میں نہیں، بلکہ خلفاء میں ہم کو مسلمان نظر آتے ہیں۔ کبیر پینتی ، داؤد پینتی اس کی زندہ مثالیں ہیں۔(1)
اس ضمن میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ لودھی دور حکومت میں رواداری اور باہمی رکھ رکھاؤ کا فروغ بڑی حد تک ہوا۔ تا ہم بھگتی تحریک کے فلسفہ پر اعتراض کیا جاسکتا ہے۔ لیکن یہاں اس کے نظریاتی پہلوؤں کو نظر انداز کرتے ہوئے یہ نتیجہ نکالنا نہایت درست ہوگا کہ ہندو مسلم اس حد تک معتدل تھے کہ ہندوؤں نے اپنے متصوفانہ اسلوب میں اسلامی تعلیمات کو بالکل رچا لیا تھا۔ اسی طرح یہ بات بھی نکل کر سامنے آتی ہے کہ جب اس حد تک اتحاد تھا تو دیگر معاشرتی اور تمدنی پہلوؤں میں بھی بہت حد تک یکسانیت ہوگی۔ مسلم حکمرانوں کا طریقہ حکومت
اکبر نے زمام اقتدار ۱۵۵۶ء میں سنبھالی۔ یہ سب جانتے ہیں کہ اکبر کے دور میں اسلام بہت کمزور ہوا۔ اس کی مورخین نے متعدد وجو ہات لکھی ہیں البتہ اس نے نظام حکومت چلانے کے لیے صلح کل کا طریقہ اختیار کیا۔ اس طریقے پر بھی بہت سے لوگوں نے تنقیدیں کی ہیں۔ ان تمام باتوں کو یہاں ترک کیا جارہا ہے۔ البتہ اکبر کے اس نظام حکومت کے متعلق شیخ محمد اکرام نے لکھا ہے: در صلح کل جس کی جہانگیر نے اتنی تعریف کی ہے، اسلامی ہندوستان کی تاریخ میں بالکل نئی چیز نہ تھی۔ جہاں تک مختلف
مذاہب کے ساتھ رواداری اور سب طبقوں کو حکومت میں حصہ دینے کا تعلق ہے، فاتح سندھ محمد بن قاسم نے اس پر پوری طرح عمل کیا۔ کشمیر میں سلطان زین العابدین کا عہد حکومت طریق صلح کل کے لئے یادگار ہے۔ فرق کمی اور بیشی کا تھا۔ بلا شبہ اکبر نے اسے بڑی وسعت دی اور اپنی حکومت کے آغاز سے اس پر عمل پیرا ہوا۔ پہلی راجپوت شہزادی سے شادی ۱۵۶۲ء میں ہوئی۔ راجا بھگوان داس اور راجا مان سنگھ کو اعلیٰ مناصب اس کے فوراً بعد ملے ۔ جزیہ ۱۵۶۴ء میں بر طرف ہوا ۔ یا ترا ٹیکس بھی اگلے سال موقوف ہو گیا۔
دربار میں اس وقت مخدوم الملک اور صدر الصدور کا زور تھا۔ لیکن ان کی طرف سے کسی مزاحمت کا بدایونی یا کسی اور مورخ نے ذکر نہیں کیا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ صلح کل کی پالیسی سے مسلمانوں کو نظام حکومت میں جو اہمیت حاصل تھی اس میں کسی قدر کی ہوگئی اور ایک حد تک غیر مسلم بھی شریک حکومت ہو گئے۔ اس سے بعض پیچیدگیاں بڑھیں اور ہندوؤں نے اطراف ملک میں اسی پالیسی کا کس طرح ناجائز فایدہ اٹھایا۔ لیکن چونکہ یہ اقدامات زیادہ تر سیاسی اور انتظامی تھے، مذہبی نہ تھے۔ اور اسلامی ہندوستان کی تاریخ میں ، (مثلاً شیر شاہ سوری اور اس کے جانشینوں کے عہد میں ) ہندوؤں کو اعلیٰ عہدے دیے جانے کی مثالیں مل جاتی ہیں۔ اس لیے ان اقدامات کی مسلمان امراء یا علماء نے مخالفت نہ کی اور صلح کل کا طریقہ
مغل نظام کا جزو ہوگیا، جو تغیر وتبدل کے ساتھ اکبر کے بعد بھی جاری رہا ۔(۱)
یہ کہا جا سکتا ہے کہ اکبر کی پالیسی تمام رعایا کو ساتھ لیکر چلنے کی تھی ، اس کا نظر یہ تھا کہ مسلمانوں کے ساتھ ہندوؤں کو بھی اعزاز اور مناصب جلیلہ پر فائز کیا جائے تا کہ معاشرہ پر امن رہ سکے اور ملک میں کسی بھی طرح کی بد امنی فرونہ ہونے پائے ۔ اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اکبر نے صلح کل کا جو طر یقہ اپنایا تھا وہ کوئی معیوب نہ تھا بلکہ اس سے قبل بھی اس طرح کی چیز میں مل جاتی ہیں۔ آج بھی ضرورت ہے کہ صاحب اقتدار اسی پالیسی کو اپنا نصب العین بنا ئیں تاکہ کسی کے ساتھ عدم رواداری اور نا انصافی نہ ہو سکے۔ ان تمام تاریخی دستاویزات کی روشنی میں یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ہندوستان میں ہندو اور مسلمانوں کے تعلقات نہایت خوشگوار تھے۔
تمام طبقات کے ساتھ برادرانہ برتاؤ کیا جاتا تھا۔ عام طور سے آج مسلم حکمرانوں پر یہ اعتراض عائد کیا جاتا ہے کہ وہ ہندوؤں کے مخالف تھے۔ انہوں نے ہندوؤں کی سرکوبی کی ۔ جبکہ حقائق اس کے برعکس ہیں۔ سچ یہ ہے کہ یہ اعتراض سیاسی ملغوبہ کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ کوئی بھی شخص مسلم حکمرانوں کے دور میں صادر ہونے والے واقعات کا تعصب کی عینک ہٹا کر مطالعہ کرے گا تو یقینا وہ ضرور اس بات کا قائل ہوگا کہ مسلم حکمرانوں نے بڑی توسع اور رواداری کا مظاہرہ کیا۔ ان کی تہذیب، دین دھرم اور زبان وادب کے فروغ کے مواقع فراہم کئے ۔ آج بھی اسی روایت کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔