دنیا بھر میں ہر سال زرتشتیت یا آتش پرست مذہب کے پیروکار یعنی پارسی افراد مارچ کے وسط میں ’جشن نوروز‘ مناتے ہیں تاہم اس دن کو پارسیوں کے علاوہ دیگر لوگ بھی مناتے ہیں۔مسلمانوں کے ایک بڑے طبقے میں نوروز منانے کا چلن صدیوں سے چلا آرہا ہے۔ ایران، افغانستان اور سنٹرل ایشیا کے کئی ملکوں میں مسلمان نوروز مناتے ہیں۔ اردو کے شاعروں نے نوروز کے موضوع پر بہت سی نظمیں لکھی ہیں۔
مغل عہد میں ہندوستان میں نوروز منانے کا کا رواج تھا۔ ’نوروز‘ فارسی زبان کا لفظ ہے، جس کی لغوی معنی ’نیا دن‘ ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس تہوار کو قدیم فارسی کیلینڈر کے آغاز کے موقع پر منایا جاتا ہے۔
امریکی نشریاتی ادارے سی این این کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ’نوروز‘ کا دن ہر سال 40 لاکھ آتش پرست عقائد کے حامل افراد مناتے ہیں تاہم مجموعی طور پر اس تہوار کو 30 کروڑ افراد کسی نہ کسی طرح مناتے ہیں۔ یہ دن نہ صرف پارسی کیلینڈر کے آغاز کے موقع پر منایا جاتا ہے بلکہ اسے دنیا میں موسم بہار کے آغاز پر بھی منایا جاتا ہے۔
دنیا کے کئی ممالک میں مارچ کے مہینے میں موسم بہار کا آغاز ہوجاتا ہے اور اسی وجہ سے زرتشتیت عقائد نہ رکھنے والے لوگ بھی ہر سال مارچ میں ’نوروز‘ کے تہوار کو موسم بہار کے جشن کے طور مناتے ہیں۔ ’نوروز‘ تہوار کو منانے والے 30 کروڑ افراد میں سے محض زرتشتیت عقائد کے پیروکار مذکورہ دن کو مذہبی طور پر مناتے ہیں جب کہ دیگر لوگ اس دن کو نئے سال اور موسم بہار سمیت خوشی کے تہوار کے طور مناتے ہیں۔
بعض مورخین کے مطابق ’نوروز‘ کا تہوار تین ہزار سال سے منایا جا رہا ہے، کیوں کہ زرتشتیت مذہب کا شمار دنیا کے قدیم ترین مذاہب میں ہوتاہے اور اس مذہب کے پیروکار تین ہزار سال قبل بھی پائے جاتے تھے۔ اس وقت دنیا بھر میں زرتشتیت عقائد کے پیروکاروں کی آبادی بہت کم رہ گئی ہے جب کہ اسی مذہب کے پیروکاروں کی نئی نسل اپنے آباؤ و اجداد کے مذہبی رجحانات سے دور ہے۔
’نوروز‘ کو مذہبی طور پر منانے والے افراد کی آبادی میں نمایاں کمی کے بعد اقوام متحدہ نے ایران، افغانستان، پاکستان اور ترکمانستان جیسے ممالک کی درخواست پر ایک دہائی قبل 21 مارچ کو ’عالمی یوم نوروز‘ منانے کی منظوری دی تھی۔ ’عالمی یوم نوروز‘ کا مقصد قدیم ترین تہذیب کو زندہ رکھنا ہے اور اقوام متحدہ کی جانب سے 21 مارچ کو نوروز ڈے قرار دیے جانے کے بعد اب ہر سال دنیا بھر میں اس دن کو منایا جاتا ہے۔
“نوروز”قدیم ایرانیوں کی عید ہے جو بہار کی آمد پر منائی جاتی ہے ۔ قدیم فارس میں زرتشت مذہب (پارسی )کے ماننے والے اسے زندگی کی تخلیق کے جشن کے طور پر مناتے تھے اور دیوتا اہورامزدا کو بھینٹ چڑھائی جاتی تھی ۔ اسے برف کے پگھلنے ، سبزے کے نکلنے ، موسم سرما کے اختتام اور زندگی کے دوبارہ سے آغاز کا تہوار کہا جاتاہے ۔ پارسی مذہب میں آگ کو مقدس سمجھاجاتاہے ۔ اس لیے بدقسمتی سے پیچھا چھڑانے کے لیے آگ کے الاؤ سے کود کر گزرا جاتا ہے ۔
وسطی ایشیا کے سرد ممالک میں طویل برفباری اور سر دموسم کے بعد موسم بہار کی شروعات حقیقت میں نئی زندگی پانے کا نام ہی ہے ۔ اس لیے آج زرتشت یا پارسی مذہب کے ماننے والے انتہائی کم لوگ رہ گئے لیکن “نوروز” کا تہوارہر آنے والے مذہب میں اپنی جگہ بنائے ہوئے ہے ۔ وقت کے ساتھ ساتھ “نوروز” موسم بہار کی آمد کا تہوار سے زیادہ مذہبی رنگ میں ڈھلتا چلا گیا ۔ اس کے بارے بہت سی روایات جڑتی چلی گئی ۔زرتشت کے دور میں نوروز چار قدرتی عناصر پانی ، مٹی ، آگ اور ہوا کا مظہر اور علامت سمجھا جاتا تھا۔
اس عقیدے اور حکومتی دلچسپی نے نوروز کو بہت رنگا رنگ اور پُر وقار بنا دیا۔ قدیم زمانے میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ سورج زمین کے گرد گردش کرتا ہے ( یہ دعویٰ اب غلط ثابت ہوچکا ہے ) اور جب وہ سال کا چکر مکمل کرتا ہے تو “نوروز”وہ مقام یا وقت ہے جب سورج برج دلو کو چھوڑ کر برج حمل میں داخل ہوتا ہے ۔ اس عمل کومقام اعتدال کہا جاتا ہے یعنی سخت سرد موسم چلا گیا اب موسم گرما آنے سے پہلے اعتدال کے موسم بہار کا آغاز ہوا چاہتا ہے ۔ “نوروز” کو ایرانی تہوار کہا جاتا ہے ۔
دراصل یہ فارسی زبان بولنے والے ممالک میں زیادہ منایا جاتا ہے ۔ترکی ، افغانستان ، تاجکستان ، آذربائیجان ،ازبکستان ،شمالی عراق ، مغربی چین ، پاکستان میں گلگت بلتستان سمیت ہندوستان کے مختلف حصوں میں جوش وخروش سے مناتے ہیں ۔ ایران ، آذربائیجان ، افغانستان سمیت مختلف ممالک میں اسے سرکاری سطح پر قومی تہوار کے طور پر بھی منایا جاتا رہا ۔ سوویت یونین میں مذہبی اور ثقافتی تہوار منانے پر پابندی کی زد میں “نوروز” بھی آیا لیکن لوگ اسے منانے سے باز نہ آئے ۔ کئی بار اسے غیر اسلامی تہوار قرار دیتے ہوئے پابندیاں لگانے کی کوشش کی گئیں لیکن کوئی پابندی کام نہ آئی ۔
“نوروز” کا آغاز لوگ اپنے گھروں کی صفائی ستھرائی سے کرتے ہیں ۔ نیا لباس زیب تن کرتے ہیں ۔ ایک دوسرے کو موسم بہار کی آمد کی مبارک باد دیتے ہیں ۔ کھیلوں کے مختلف مقابلے ہوتے ہیں ۔ افغانستان سمیت وسطی ایشیا کے ممالک میں بزکشی کھیلنے کا اہتمام کیا جاتاہے ۔ بزکشی میں گھڑسوار کی ٹیموں کے درمیان ایک بھیڑ ذبح کرکے رکھی جاتی ہے جسے ایک دوسرے سے چھینتے ہوئے مخصوص جگہ پر جو لے جائے وہ ٹیم جیت جاتی ہے ۔
آج کے دور میں اس کی ایک جدید شکل پولو کہی جاسکتی ہے ۔ اسی دن کے حوالے سے فال گوش ایک اور قدیم روایت ہے جو نوجوان لڑکیاں اپنے ہونے والے شوہروں کے بارے میں جاننے کے لئے اختیار کرتی ہیں۔فال گوش کے لئے ایسی لڑکیاں ایک اندھیرے کونے میں چھپ کر راستے پر آتے جاتے لوگوں کی گفتگو سنتی ہیں اور اس گفتگو کی صحیح تفسیر سے وہ اپنے مستقبل کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتی ہیں ۔ پارسی مذہب میں آگ کو مقدس سمجھا جاتاتھا کہ یہ گناہوں اور بری طاقتوں کو جلا دیتی ہے ۔
شدید سرد علاقوں میں آگ کی اہمیت سے آج بھی انکار نہیں کیا جاتا ۔اس لیے نوروز کاایک دلچسپ رواج آگ سے کودنا بھی ہے ۔ لوگ آگ جلا کر اس پر سات مرتبہ پھیلانگتے ہیں تاکہ بری طاقتوں سے چھٹکارا پایا جاسکے ۔ کئی جگہوں پر سات جگہ آگ جلا کر اس پر سے ایک ہی بار پھلانگا جاتا ہے ۔ یہ قدیم رواج اب نئی شکل اختیار کرچکا ہے ۔ اب زیادہ ترخاندان صرف موم بتیاں جلاتے ہیں یا چھوٹا کا الاؤ جلاتے ہیں ۔ سوویت یونین سے آزادی ملنے کے بعد آذربائیجان کے بانی صدر حیدرعلی یوف نے نوروز پر قومی تعطیل کا اعلان کیا۔
وہ اپنی زندگی میں نوروز کی تمام تقریبات میں شرکت کرتے تھے ۔ یہی وجہ سے آذربائیجان میں نوروز کی قدیم اور جدید روایتیں زیادہ مضبوط نظر آتی ہیں ۔ آذربائیجان میں جشنِ نوروز کے سلسلے میں لوگ گھروں، چھتوں، گلیوں اور مکانوں کے شیڈز پر چھوٹی چھوٹی آگ جلاتے ہیں۔ قدیم دور میں چھوٹے بچے سے آگ لگوائی جاتی تھی ۔ایسی آگ کو صحیح اور پاک سمجھا جاتا تھا ۔ زرتشت دور میں سمجھا جاتا تھا کہ بدھ کو نوروز کا آغاز ہوتا ہے جس کا جشن مہینہ بھر جاری رہتا ہے ۔
ہر بدھ یا چہار شنبہ فطرت کے چار عناصر سے منسوب ہیں۔ ان کے نام مختلف جگہوں پر مختلف ہیں۔ چار چہار شنبوں میں سے پہلا ہوا کے لئے مخصوص ہے، دوسرا پانی ، تیسرا زمین اور چوتھا درختوں اور پودوں کے احیاء کے لئے مخصوص ہے۔ ان چار مخصوص چہار شنبوں میں سے آخری یعنی ہوا کا چہار شنبہ سب سے اہم ہے کیونکہ اس دن سب سے اہم تقریبات کا انعقاد ہوتا ہے اور یہ تقریبات انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیے ہوتی ہیں۔ یہ رسومات انسان کی فلاح و بہبود کے لئے ہوتی ہیں۔ ان کا مقصد گزشتہ سال کے مصائب اور تکالیف سے چھٹکارا پانا اور نئے سال کے ایسے مسائل سے بچنا ہوتا ہے۔