پاکستان میں گذشتہ ایک برس کے دوران معاشی بحران بدتر ہوتا جا رہا ہے اور پاکستان مسلم لیگ نواز کی سربراہی میں اتحادی حکومت کسی نہ کسی طرح ملک کو گھمبیر ہوتی معاشی صورتحال سے نکالنے کے لیے کوشاں نظر آتی ہے۔
گذشتہ چند دہائیوں سے جب بھی پاکستان کو اس نوعیت کی معاشی صورتحال کا سامنا ہوا تو فوجی اور سیاسی حکمرانوں کی نظریں سعودی عرب کی جانب اٹھتی دکھائی دیں اور سعودی عرب کی جانب سے بھی ملنے والا ردعمل عموماً مایوس کُن نہیں رہا۔
اس مرتبہ بھی سعودی ولی عہد اور وزیراعظم محمد بن سلمان نے پاکستانی فوج کے جنرل عاصم منیر سے رواں ہفتے ہونے والی ملاقات کے فوراً بعد اپنے مالیاتی اداروں کو حکم دیا ہے کہ وہ پاکستان میں سرمایہ کاری اور قرضوں کو بڑھانے کا جائزہ لیں۔ سعودی اعلان کے مطابق پاکستان میں جاری سرمایہ کاری کا حجم 10 ارب جبکہ سٹیٹ بینک آف پاکستان میں ڈیپازٹ سعودی رقم کا حجم پانچ ارب ڈالر تک کرنے کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔
سعودی عرب کا شمار دنیا کے امیر ترین ممالک میں ہوتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ وہ ایک غریب اور مصیبت زدہ ملک یعنی پاکستان کی مدد کے لیے بار بار کیوں آگے آتا ہے؟
اس سوال کا جواب ماضی کے چند واقعات اور دونوں ممالک کے روابط میں چھپا ہے۔
سنہ 1998 میں پاکستان کی جانب سے ایٹمی تجربے کیے جانے کے فوراً بعد سعودی عرب کے اس وقت کے وزیر دفاع شہزادہ سلطان بن عبدالعزیز آل سعود اسلام آباد پہنچے تھے۔
تب امریکہ کے صدر بل کلنٹن تھے اور شہزادہ سلطان بن عبدالعزیز آل سعود کے اس دورے سے امریکہ کو خدشات کافی لاحق ہوئے تھے۔
کلنٹن انتظامیہ کے ایک سینیئر اہلکار نے تب نیویارک ٹائمز سے کہا تھا کہ سعودی وزیر دفاع کا دورہ پاکستان ’پریشان کن‘ ہے۔ اس دوران یہ اطلاعات بھی سامنے آئی تھیں کہ سعودی شہزادے کو مبینہ طور پر پاکستان کی خفیہ جوہری اڈوں کا دورہ کروایا گیا تھا۔
تب امریکہ کو بھی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ سعودی وزیر مبینہ طور پر پاکستان کے جوہری مراکز پر کیوں گئے تھے؟
اس حوالے سے پاکستان اور سعودی عرب دونوں ہی کی جانب سے کوئی وضاحت سامنے نہیں آئی تھی۔
شہزادہ سلطان سعودی عرب کے اس وقت کے بادشاہ کے بھائی تھے اور سعودی عرب کے دفاعی امور پر ان کی رائے اہمیت کی حامل سمجھی جاتی تھی۔
ایسی اطلاعات بھی تھیں کہ امریکہ کو خدشہ تھا کہ کہیں پاکستان کے ذریعے مشرق وسطیٰ میں ایٹمی ہتھیاروں کا پھیلاؤ شروع نہ ہو جائے اور سعودی عرب کے وزیرِ دفاع کے اس دورے کو ملک کی جوہری ہتھیاروں کی خواہش سے بھی جوڑا گیا تھا۔
تاہم سابق سیکریٹری خارجہ نجم الدین شیخ کے مطابق ’جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ سعودی عرب کی اس حوالے سے کوئی دلچسپی تھی اس میں کوئی سچائی نہیں ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کی بنیاد دراصل وہ معاہدہ ہے جو 1984 میں کیا گیا تھا جس کے تحت ’اگر شاہی خاندان کو کسی بھی قسم کا خطرہ ہو گا تو پاکستان اپنی فوج مہیا کرے گا۔‘
پبلک پالیسی پر تحقیق کے ادارے اور تھنک ٹینک بروکنگز کی ایک رپورٹ کے مطابق ’پاکستان کے جوہری پروگرام کے ساتھ سعودی عرب کا تعلق پاکستانی وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور سے
پاکستانی پریس کے مطابق شہزادہ سلطان کے ساتھ اس وقت کے وزیر اعظم پاکستان نواز شریف اور مشہور ایٹمی سائنسدان اے کیو خان بھی یورینیم افزودگی مرکز میں موجود تھے۔
اس وقت پاکستانی پریس میں یہ خبریں شائع ہو رہی تھیں کہ سعودی عرب ہتھیاروں کی تیاری میں پاکستان کی مدد کرتا رہا ہے۔
اس کے بعد ہینری ایل سٹیمسن سینٹر فار سٹڈی آف سکیورٹی افیئرز کے صدر مائیکل کریپن نے نیویارک ٹائمز کو بتایا تھا کہ ’سعودی عرب کا تعاون پاکستان کو صرف رقم دینے تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کی دلچسپی اس سے زیادہ ہے۔‘
’شہزادہ سلطان کا پاکستان کے یورینیم افزودگی کے مرکز تک جانا ان کی دلچسپی ظاہر کر رہا ہے۔‘
پاکستان کی اتنی مدد کیوں؟
سعودی عرب اور پاکستان کی دوستی کے حوالے سے سنہ 2008 میں بروکنگز انٹیلیجنس پراجیکٹ کے سینیئر فیلو اور ڈائریکٹر بروس ریڈل نے لکھا تھا کہ سنہ 1960 کی دہائی سے عرب دنیا سے باہر پاکستان کو سعودی عرب سے جتنی امداد ملی ہے اتنی کسی اور ملک کو کبھی نہیں ملی۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’مثال کے طور پر مئی 1998 میں جب پاکستان یہ فیصلہ کر رہا تھا کہ آیا انڈیا کے پانچ جوہری تجربات کا جواب دیا جائے یا نہیں، تب سعودی عرب نے پاکستان کو یومیہ 50 ہزار بیرل تیل مفت دینے کا وعدہ کیا تھا۔‘
’اس سے پاکستان کو ایٹمی تجربے کے بعد مغربی ممالک کی اقتصادی پابندیوں کا مقابلہ کرنے میں بہت مدد ملی تھی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ کہا جاتا ہے کہ سعودی عرب کے اس وعدے نے اس وقت کے وزیرِ اعظم پاکستان نواز شریف کو ایٹمی تجربے کا فیصلہ کرنے کا حوصلہ ملا تھا۔
تاہم اس دعوے کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کی جا سکی ہے۔
پاکستان سعودی عرب کے لیے بوجھ ہے یا اس کی طاقت
بروس ریڈل نے لکھا ہے کہ ’پاکستان کے ایٹمی تجربے کے بعد سعودی عرب نے پاکستان کے خلاف امریکہ اور یورپی یونین کی پابندیوں کو نرم کروانے میں بہت مدد کی تھی۔‘
ان کے مطابق ’سعودی شاہی خاندان اور وہاں کے مذہبی اداروں کی جانب سے بڑے پیمانے پر مالی مدد آئی تھی۔ پاکستان کے مدارس کو فنڈز اب بھی سعودی عرب سے آتے ہیں۔‘
بروکنگز کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب نے سنہ 1960 کی دہائی میں رائل سعودی ایئر فورس اور اپنے پہلے جیٹ فائٹرز کے پائلٹ پاکستان کی مدد سے تیار کیے تھے۔
خیال رہے کہ سنہ 1969 میں پاکستانی فضائیہ کے پائلٹوں نے سعودی عرب کی جنوبی سرحد کے ساتھ یمنی دراندازی کو پسپا کرنے کے لیے رائل سعودی ایئر فورس کے طیارے اڑائے تھے۔
اس کے بعد سے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان قریبی فوجی تعلقات کبھی نہیں رُکے۔
سنہ 1980 کی دہائی میں افغان جنگ میں سوویت یونین کے خلاف سعودی عرب اور پاکستان کا مشترکہ کردار کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔
خارجہ امور پر تجزیہ کار ڈاکٹر ہما بقائی کا کہنا ہے کہ ’پاکستان اور سعودی عرب کے تعلق میں ایک مذہبی رواداری کا عنصر موجود ہے۔‘
’اس سے بھی اہم سٹریٹیجک اور نظریاتی ہم آہنگی ہے۔ اگر آپ 80 کی دہائی دیکھیں تو چاہے ایران کا انقلاب ہو یا افغان جنگ، سعودی عرب، پاکستان اور امریکہ کے درمیان سٹریٹیجک کنورجنس تھی۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اس سٹریٹیجک کنورجنس کے باعث اب یہ بات کہی جاتی ہے کہ جو شدت پسندی کی لہر، وہابی اسلام کا عروج یا شیعہ مخالف نظریات کا ابھرنا بھی اسی گٹھ جوڑ کے شاخسانے ہیں جس کے خلاف پاکستان میں اب تھوڑی بہت بات ہو رہی ہے۔‘
پاکستان میں سعودی عرب کا اثر
سعودی عرب کی انٹیلیجنس ایجنسی کے سابق سربراہ شہزادہ ترکی بن سلطان نے ایک بار کہا تھا کہ ’پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان شاید پوری دنیا میں سب سے قریبی تعلقات ہیں۔‘
پاکستان کے ناقدین اکثر کہتے ہیں کہ سعودی عرب کے پیسے نے ’پاکستان کی سیاست اور معاشرے‘ پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ سعودی عرب نے پاکستانی مدارس کے ذریعے وہابی نظریے کی جڑیں بہت مضبوط کی ہیں۔
پاکستان میں مذہبی جماعتوں کے سیاسی اثر و رسوخ میں اضافے میں بھی سعودی عرب کا اہم کردار سمجھا جاتا ہے۔ سنہ 1960 کی دہائی میں پاکستان نے کئی عرب ممالک کے فوجیوں کی تربیت میں مدد کی۔
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے سینٹر فار ساؤتھ ایشین اسٹڈیز میں پروفیسر سنجے کمار بھردواج کہتے ہیں کہ ’پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا اور اسلامی ممالک میں پاکستان واحد ایٹمی طاقت والا ملک ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اسلام کے نقطہ نظر سے سعودی عرب سب سے اہم ہے اور جس علاقے میں وہ واقع ہے وہاں اس کی سلامتی کے حوالے سے بہت سے خطرات موجود ہیں۔‘
’ایسے میں پاکستان سعودی عرب کے لیے بہت اہم ہو جاتا ہے۔‘
پروفیسر سنجے بھردواج کہتے ہیں کہ ’اسے ایک اور انداز سے دیکھیں، تو پاکستان سعودی عرب کے لیے بوجھ بھی ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تجارت بمشکل دو ارب ڈالر ہے جبکہ سعودی عرب انڈیا کا چوتھا بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ اس وقت سعودی عرب اور انڈیا کی باہمی تجارت کا حجم 44 ارب ڈالر ہے۔‘
سعودی عرب انڈیا کو تیل فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ سعودی عرب کی معیشت کے لحاظ سے انڈیا بہت اہم ملک ہے۔
جس کی وجہ سے اب سعودی عرب کشمیر کے حوالے سے انڈیا کے ساتھ بہت نرم رویہ اختیار کر رہا ہے۔ اس معاملے میں پاکستان کی الجھن صاف نظر آتی ہے۔
’فری لنچ‘ کا عنصر اب کسی کے لیے بھی نہیں ہے‘
ڈاکٹر ہما بقائی کا پاکستان کا سعودی عرب پر ’بوجھ‘ بننے کے مفروضے پر کہنا تھا کہ ’آپ یہ کہہ سکتے ہیں اور اس وقت امداد دینے اور پاکستان کو اس معاشی صورتحال سے نکالنے کے حوالے سے سعودی عرب کی جانب سے ہچکچاہٹ دکھائی جاتی ہے اس کی وجہ ان کی سوچ میں تبدیلی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’پہلے جو ’فری لنچ‘ کا عنصر تھا وہ اب کسی کے لیے بھی نہیں ہے، کچھ اعتبار سے تو اب امریکہ کے لیے بھی نہیں ہے۔
’پہلے امریکہ کے کہنے پر سعودی عرب پاکستان کو خراب معاشی صورتحال سے نکالنے میں مدد کرتا تھا۔ اب وہاں پر بھی تھوری کمی ہوئی ہے لیکن یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ میرا خیال ہے کہ پاکستان ایک بار پھر اپنے سرد جنگ والے کردار نبھانے میں واپس جا رہا ہے۔‘
انھوں نے اس حوالے سے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ ’اس میں ہمارے فوجی انفراسٹرکچر کی سعودی عرب کے لیے مشرقِ وسطیٰ میں موجودگی شامل ہو سکتی ہے۔
’پاکستان کا افغانستان میں بدلتا کردار اور پاکستان کے مشرقِ وسطیٰ اور امریکہ سے تعلقات میں تبدیلی بھی شامل ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میرے خیال میں اس سے درمیانی طاقتیں یا ایسے ممالک جنھیں اپنے جغرافیہ کے باعث برتری حاصل ہے، جیسے پاکستان، وہ اس صورتحال میں فائدہ حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے۔‘
یہ رپورٹ بی بی سی کے لیے رجنیش کمار نے لکھی ہے جس کے لیے اضافی رپورٹنگ اسلام آباد سے محمد صہیب نے کی ہے۔