نئے نوول کورونا وائرس کی 3 بنیادی اقسام لوگوں کو متاثر کررہی ہیں اور یہ اندازوں سے زیادہ پہلے انسانوں میں پھیلنا شروع ہوچکا تھا۔یہ بات ایک نئی تحقیق میں سامنے آئی۔جرمنی اور برطانیہ کے سائنسدانوں کی اس تحقیق میں 24 دسمبر 2019 سے 4 مارچ مارچ 2020 تک کورونا وائرس کے 160 مکمل جینومز کو دیکھا گیا جن کا سیکوئنس انسانی مریضوں سے تیار کیا گیا تھا۔محققین نے دریافت کیا کہ وائرس کی 3 اقسام ہیں جو ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں۔محققین نے یہ بھی دریافت کیا کہ چین کے شہر ووہان اور مشرقی ایشیا میں پھیلنے والا کورونا وائرس درحقیقت اس کی اصل قسم نہیں بلکہ یہ ٹائپ بی قسم ہے جو اوریجنل سارس کوو 2 وائرس یا ٹائپ اے سے بنا۔یہ ٹائپ اے وائرس ممکنہ طور پر چمگادڑوں سے براستہ پینگولین انسانوں میں چھلانگ لگا کر پہنچا تھا۔
حیران کن طور پر اب ٹائپ اے ورژن امریکا اور آسٹریلیا میں زیادہ پایا جارہا ہے جبکہ ایک تیسری قسم ٹائپ سی ہے جو ٹائپ بی سے بنی اور سنگاپور کے راستے یورپ میں پھیل گئی۔سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ اس وائرس میں تسلسل سے تبدیلیاں آرہی ہیں جس سے وہ مخلف اقوام میں مدافعتی نظام کی مزاحمت کو گراتا چلاجارہا ہے۔سائنسدانوں نے پہلی بار اس وائرس کی بنیاد جاننے کے لیے قدم زمانے کے انسانوں کی ہجرت کے لیے استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی کو استعمال کرکے وائرس کے پھیلائو کو ٹریک کیا۔
کیمبرج یونیورسٹی کے ڈاکٹر پیر فورسٹر نے اس تحقیقی ٹیم کی قیادت کی اور ان کا کہنا تھا ‘کووڈ 19 کے شجرہ نسب میں بہت تیزی سے تبدیلیوں کو دیکھا گیا، اس مقصد کے لیے ہم نے ریاضیاتی نیٹ ورک الگورتھم کو استعمال کیا، اس تیکنیک کو عموماً زمانہ قدم کی انسانی آبادی کی ہجرت کی میپنگ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، ہمارے خیال میں یہ پہلی بار ہے کہ کسی انفیکشن کی بنیاد جاننے کے لیے اسے استعمال کیا گیا’۔
سائنسدانوں نے جن جینومز کو دیکھا گیا، ان میں 3 اقسام کو دریافت کیا گیا اور انہوں نے دریافت کیا کہ ٹائپ اے کورونا وائرس اس سے ملتا جلتا ہے جو چمگادڑوں میں پایا جاتا ہے۔
یہ وائرس ووہان کے وائرس جینوم میں دیکھا گیا مگر حیران کن طور پر شہر میں بالادست قسم نہیں تھی۔اس ٹائپ کی مزید تبدیل شدہ اقسام ان امریکی شہریوں میں رپورٹ ہوئی جو ووہان میں مقیم تھے اور اب اس کے زیادہ تر مریض امریکا اور آسٹریلیا میں موجود ہیں۔ووہان میں زیادہ تر مریضوں میں ٹائپ بی وائرس دریافت ہوا جو مشرقی ایشیا میں پھیلا تاہم یہ قسم اس خطے سے باہر نہیں گئئی، جس کی ممکنہ وجہ اس قسم کے خلاف مشرقی ایشیا سے باہر لوگوں میں مزاحمت ہوسکتی ہے۔ٹائپ سی قسم یورپ کی بنیادی قسم ہے جو فرانس، اٹلی، سوئیڈن اور انگلینڈ کے ابتدائی مریضوں میں دیکھی گئی، جو کہ چین کے نمونوں میں موجود نہیں تھی مگر سنگاپور، ہانگ کانگ اور جنوبی کوریا میں نظر آئی۔اس تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ اٹلی میں یہ وائرس 27 جنوری کو پہلے جرمن انفیکشن کے ذریعے پہنچا جبکہ ایک اور ابتدائی اٹالین مریض میں یہ سنگاپور کے وائرس کا نتیجہ قرار پایا۔
سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ یہ جینیاتی نیٹ ورک تیکیک بالکل درست طریقے سے وائرس کے پھیلائو کی سمت، اس میں تبدیلیوں اور شجرہ نسب کا تعین کرسکتی ہے۔انہوں نے زور دیا کہ اس طریقہ کار سے مستقبل میں کووڈ 19 کی وبا کا مرکز بننے والے حصوں کا تعین کرنے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔اس تحقیق کے نتائج جریدے جرنل پروسیڈنگز آف دی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز میں شائع ہوئے اور اس کے لیے استعمال ہونے والے سافٹ وئیر کے ساتھ ساتھ ایک ہزار کورونا وائرسز کو بھی دیگر سائنسدانوں کے لیے مفت فراہم کیا جارہا ہے۔سائنسدانوں نے اس سے ہٹ کر ایک ہزار وائرل جینومز کا تجزیہ بھی شروع کیا ہے جس کے نتائج ابھی جاری نہیں ہوئے، مگر فی الحال اس کام سے عندیہ ملتا ہے کہ انسانوں میں کووڈ 19 کا مرض ستمبر کے وسط سے دسمبر کے شروع میں کسی وقت سامنے آیا تھا۔خیال رہے کہ مارچ میں ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اس وائرس کا پہلا کیس 17 نومبر کو سامنے آیا تھا۔یہ بات ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ نے چینی حکومت کے کورونا وائرسز کے کیسز کے تجزیے کے حوالے سے بتائی۔چینی حکومتی ڈیٹا کے مطابق 17 نومبر کو یہ ممکنہ پہلا مریض سامنے آیا تھا۔اس کے بعد روزانہ ایک سے 5 نئے کیسز رپورٹ ہوئے اور 15 دسمبر تک کووڈ 19 کے مریضوں کی تعداد 27 تک پہنچ گئی تھی جبکہ 17 دسمبر کو پہلی بار 10 کیسز رپورٹ ہوئے اور 20 دسبمر کو مصدقہ کیسز کی تعداد 60 تک پہنچ گئی تھی۔27 دسمبر کو ہوبے پرویژنل ہاسپٹل آف انٹیگرٹیڈ کے ڈاکٹر زینگ جی شیان نے چینی طبی حکام کو اس نئے کورونا وائرس سے ہونے والے مرض کے بارے میں بتایا تھا، جب تک مریضوں کی تعداد 180 سے زائد ہوچکی تھی، مگر اس وقت بھی ڈاکٹروں کو اس کے حوالے سے زیادہ شعور نہیں تھا۔
2019 کے آخری دن یعنی 31 دسمبر کو مصدقہ کیسز کی تعداد 266 تک پہنچی اور یکم جنوری کو 381 تک چلی گئی۔رپورٹ کے مطابق چینی حکومت کا یہ ریکارڈ عوام کے لیے جاری نہیں کیا گیا، مگر اس سے ابتدائی دنوں میں مرض کے پھیلاؤ کی رفتار کے بارے میں اہم سراغ ملتے ہیں اور یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت تک چین میں کتنے کیسز رپورٹ ہوچکے تھے۔سائنسدان اس پہلے مرض کی تلاش اس لیے بھی کرنا چاہتے ہیں تاکہ نئے کورونا وائرس کا باعث بننے والے ذریعے کا سراغ لگایا جاسکے، جس کے بارے میں ابھی سوچا جاتا ہے کہ یہ کسی جانور جیسے چمگادڑ سے ایک اور جانور میں گیا اور پھر انسانوں میں منتقل ہوگیا۔حکومتی ڈیٹا کے مطابق یہ بھی ممکن ہے کہ ایسے کیسز نومبر سے بھی پہلے رپورٹ ہوئے ہوں جن کی تلاش کا کام ہورہا ہے۔