خواتین کیلئے نماز باجماعت کا لزوم نہیں‘ سپریم کورٹ میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کا حلفنامہ

 

آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے آج سپریم کورٹ کو بتایاکہ مسلم مردوں کی طرح مسلم خواتین کو ‘ نماز کی ادائیگی کیلئے مساجد میں داخل ہونے کی اجازت ہے۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ نے ایک درخواست مفاد عامہ( پی آئی ایل) کے جواب میں مذکورہ جوابی بیان سپریم کورٹ میں داخل کیا ہے۔ محولہ پی آئی ایل یاسمین زبیر احمد پیرزادہ نے داخل کی ہے اور مانگ کی ہے کہ مساجد میں مسلم خواتین کے داخلہ کو یقینی بنانے عدالت مداخلت کرے۔ یاسمین کی درخواست پر چیف جسٹس ایس اے بوبڈے کی زیر صدارت ایک 9رکنی دستوری بنچ غور کرے گا۔ مذکورہ بنچ‘ مختلف مذاہب اور مذہبی مقامات بشمول کیرالا کے سبری مالا مندر میں خواتین کیخلاف امتیاز سے متعلق قانونی اور دستوری مسائل کاجائزہ لے رہا ہے۔ سکریٹری مسلم پرسنل لاء بورڈ محمد فضل الرحیم نے بتایاکہ ’’ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ‘ اِس سلسلہ میں کسی متضاد مذہبی رائے پر کوئی تبصرہ کرنا نہیں چاہتا‘‘۔ فضل الرحیم نے اپنا حلفنامہ‘ ایم آر شمشاد ایڈوکیٹ کے توسط سے داخل کیا۔ اِس حلفنامہ میں کہا گیا ہے کہ اسلام نے ‘ نماز باجماعت میں مسلم خواتین کی شرکت کو لازمی نہیں بنایا ہے اور نہ ہی مسلم خواتین کیلئے نماز جمعہ باجماعت ادا کرنے کا لزوم ہے ۔ اگرچہ مسلم مردوں پر اِس کا لزوم ہے۔ حلفنامہ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’’ مسلم خواتین کا مقام جداگانہ ہے کیونکہ اسلامی اصولوں کے تحت ایک مسلم خاتون کو عبادت کا وہی ثواب ہے خواہ وہ ( خاتون) مسجد میں نماز ادا کرے یا گھر میں‘‘۔ یہاں یہ تذکرہ بیجانہ ہوگا کہ سپریم کورٹ نے گذشتہ کل بتایاکہ ایک 9رکنی دستوری بنچ ‘مساجد میں مسلم خواتین کے داخلہ سے متعلق اُٹھائے گئے سوالات کی سماعت اندرون 10یوم کرے گا۔ مذکورہ سوالات میں ایک سوال‘ داودی بواہیر مسلم فرقہ میں خواتین کی ختنہ کا ہے اور مزید ایک سوال کسی غیر پارسی مرد سے شادی کی ہوئی پارسی خاتون کو‘ اگیاری کے مقام پر ’’ مقدس‘‘ آتش کدہ میں داخلہ سے روکنے سے متعلق ہے۔پرسنل لاء بورڈ نے یہ استدلال پیش کیا ہے کہ یہ بات سپریم کورٹ کیلئے مناسب نہیں ہے کہ وہ مذہبی عقائد پر مبنی اعمال سے متعلق سوالات پر غور کرے۔حلفنامہ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مساجد میں مذہبی اعمال کو خانگی تنظیموں کے تحت باقاعدہ بنایاجاتا ہے۔ یہ تنظیمیں؍ ادارے‘ مساجد کے متولیوں اور مسلم پرسنل لاء بورڈ سے مربوط رہتے ہیں۔مسلم پرسنل لاء بورڈماہرین کا ایک ادارہ ہونے کے سبب اسلام پر مبنی صرف مشاورتی رائے جاری کرسکتا ہے۔ حلفنامہ میں یہ بات بتائی گئی ہے کہ ’’ جہاں تک اِس معاملہ کا تعلق ہے یہ عدالت‘ کسی مذہبی مقام کے تفصیلی انتظامات کے دائرہ میں داخل نہیں ہوسکتی کیونکہ مذہبی مقام‘ کسی مخصوص مذہب کے ماننے والوں کے مذہبی اعمال کیلئے کُلی طورپرایک خانگی زیر انتظام ادارہ ہے‘‘۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں