حسرت موہانی نے کانگریس، لیگ ، خلافت کمیٹی، جمعیت العلما ہند اور کمیونسٹ پارٹی کے اجلاسوں میں مکمل آزادی کی یا تو قراردادیں پیش کیں یا اس نصب العین کے لیے انہوں نے جوشیلی تقریریں کیں۔ ان کو “مجنونِ آزادی” اور “دیوانہ ملا” کہا گیا۔جب وہ پہلی بار بارلیمنٹ میں تقریر کرنے کھڑے ہوئے تو اس وقت ایوان کی صدارت کرنے والے ڈاکٹر ایچ۔ سی۔ مکھرجی (جو نائب صدر تھے) نے مولانا حسرت موہانی کا تعارف کراتے ہوئے ارکان پارلیمنٹ کو یاد دلایا کہ :”مجھے امید ہے کہ ممبران پارلیمنٹ یہ بات نہ بھولے ہوں گے کہ مولانا حسرت نے ہی ہندوستان میں سب سے پہلے مکمل آزادی کا مطالبہ کیا تھا۔ مجھے خوشی ہے کہ ایوان، مولانا حسرت موہانی کی بے مثال خدمات جو انہوں نے وطن کے لیے انجام دیں، اس کو نہیں بھولا۔”
اس پر پارلیمنٹ میں کافی دیر تک تالیوں کی گڑگڑاہٹ سنائی دیتی رہی اور پارلیمنٹ کی میزیں تھپتھپائی گئیں۔
کچھ حد بھی ہے اس سورشِ خاموش کی حسرت
یہ کشمکش غم تجھے بے کار نہ کر دے
مولوی عبدالحق نے حسرت موہانی کی زندگی کا جائزہ لیتے ہوئے صحیح لکھا ہے :”آزادی کا شیدائی کوئی کم ہوگا۔ اس کی خاطر انہوں نے طرح طرح کی مصیبتیں، ایذائیں، عقوبتیں جھیلیں۔ لیکن ان کے قدم میں کبھی لغزش نہ آئی۔ اپنے خیال کے اظہار میں نہایت بیباک، جس طرح انھوں نے کانگریس میں کامل آزادی کی آواز اٹھائی، اسی طرح مسلم لیگ میں نعرہ حق بلند کیا۔”
بقول رشید احمد صدیقی :”۔۔۔۔۔ آزادی کے بارے میں وہ سر تا پا آگ تھے۔ کسی قسم کی مصلحت کوش یا بےجا مفاہمت ان کے نزدیک ضمیر فروشی تھی۔”
ڈاکٹر ذاکر حسین صاحب کی رائے حسرت موہان کے متعلق یہ تھی :”نفس کے مطالبات کے پیچھے لوگ کیا کچھ نہیں کر ڈالتے۔ حسرت نے ضمیر کے مطالبات کی خاطر سب کچھ کر ڈالا، تمام عمر مصیبت جھیلی لیکن کوئی مصیبت ان کے ضمیر کی آواز کو دبا نہ سکی۔ ہر مصیبت نے ان کی شان دوبالا کی۔”
بقول قاضی عدیل عباسی مولانا حسرت موہانی سوائے آزادئ کامل کے، ڈومنین اسٹیٹس کسی بھی حالت میں قبول کرنے کو تیار نہیں تھے۔ گورکھپور کے ایک بڑے اجتماع کو خطاب کرتے ہوئے مولانا حسرت موہانی نے فرمایا کہ :میں نے مسلم لیگ میں اس لیے رکنیت، شمولیت اختیار کی ہے کیونکہ جناح اور گاندھی دونوں صلح کر کے مکمل آزادی کے بجائے ڈومینین اسٹیٹس نہ قبول کر سکیں، مجھے اسکی مزاحمت کرتی ہے”۔
1931ء میں جمیعت العلما ہند میں دو گروہ ہو گئے۔ ایک جمیعت العلما دہلی، دو سرا جمعیت العلما کانپور کہلایا۔ 1931 میں جمیعت العلما کانپور کا اجلاس الہ آباد میں منعقد کیا گیا جہاں حسرت موہانی کی صدارت کے لیے انتخاب عمل میں آیا۔ 8/ اور 9/ اگست 1931 کو اس کے صدارتی خطبے میں آپ نے فرمایا :”ہندوستان کے متعلق میرے سیاسی نصب العین کا حال سب کو معلوم ہے کہ میں آزادئ کامل سے کم کسی چیز کو کسی حالت میں منظور نہیں کر سکتا۔ اور آزادئ کامل بھی وہ جس کا دستور اساسی، امریکہ یا روس کے مانند لازمی طور پر
(1) جمہوری
(2) ترکیبی اور
(3) لامرکزی ہو
اور جس میں اسلامی اقلیت کے تحفظ کا پورا سامان بھی بصراحت تمام موجود ہو۔”ہندوستان کی پہلی کمیونسٹ کانفرس دسمبر 1925ء میں کانپور میں کی گئی جس کے صدر استقبالیہ حسرت موہانی تھے اس میں بھی حسرت موہانی نے کمیونسٹ پارٹی کے اغراض و مقاصد گناتے ہوئے یہ بھی کہا:
“ہندوستان میں سوراج یعنی آزادئ کامل کا کل جائز ذریعوں سے قائم کرنا۔۔۔”حسرت موہانی آزادئ کامل سے کم کسی چیز کو تسلیم کرنے کو تیار نہ تھے اور جو بھی پارٹی ان کے نصب العین کو اپناتی، حسرت موہانی اس کے ساتھ ہوتے۔
تحریک حریت کو جو پایا قریں قیاس
ہر عہد میں معاونِ تحریک ہم رہے
حریتِ کامل کی قسم کھا کے اٹھے ہیں
اب سایۂ برٹش کی طرف جائیں گے کیا ہم