شیخوں، چوہدریوں، اعوانوں، بزداروں، شبلیوں ، زیدیوں کو خوش ہونا چاہیے کہ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ نے انہیں پورے 50دن کی مہلت دے دی، 26 مارچ تک عمران خان کو پھر موقع مل گیا ہے کہ وہ عوام کی راحت کے لیے کوئی تدبیر ذہن میں رکھتے ہیں تو سامنے لے آئیں۔
26مارچ کو 13شعبان ہوگی، رمضان المبارک میں 17دن رہ جائیں گے، پی ڈی ایم ٹیمپو برقرار نہیں رکھ پائے گی، تحریک انصاف کے لیے موجاں ای موجاں۔
آج اتوار ہے، اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں سے کھل کر باتیں کرنے کا دن، یوں تو ہم بڑوں کو مخاطب کرتے ہیں، بچوں بچیوں سے ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ ان کے لیے آج اپنے بڑوں سے کھل کر سوالات کرنے، ہفتے بھر کی الجھنیں دور کرنے کا وقت۔
پی ڈی ایم اب مرکز سخن نہیں رہی، وہ اپنا اثر کھوتی جارہی ہے، المیہ یہ ہے کہ اس سے حکومت کو مزید چھوٹ مل رہی ہے، کہیں سے کوئی ایسا منصوبہ، ایسی اسکیم نہیں سنائی دیتی جس سے پاکستانیوں کی اکثریت کو اپنی کم آمدنی میں بنیادی ضروری اشیاء میسر آجائیں۔
معلوم نہیں کہ کروڑوں نوجوانوں کی آرزو کے مرکز عمران خان کو کوئی اس حقیقت سے آشنا کرتا ہے کہ نہیں کہ نوجوان ان سے مایوس ہورہے ہیں، ان کی مشکلات جوں کی توں ہیں، وقت کا تقاضا تو یہ ہے کہ ’اسٹیٹس کو‘ سے نکلا جائے۔
میں نے 1970 کی دہائی میں محسوس کیا تھا۔
پھیلتا جاتا ہے اک لمحہ جو ڈھلتا ہی نہیں
وقت یوں ہم پہ رکا ہے کہ بدلتا ہی نہیں
لوگ آہٹ پہ ہی آجاتے تھے گلیوں میں کبھی
اب تو چیخیں بھی کوئی گھر سے نکلتا ہی نہیں
وقت رک گیا ہے، ایک لمحہ ہم پر مسلط ہوگیا ہے۔ ہم سیاست کے طالب علم ہیں، معیشت کے رموز سے آگاہ نہیں ہیں حالانکہ آج کے دَور میں اصل مضمون اکانومی ہی ہے، سارے سیاسی نظام بہتر اکانومی چاہتے ہیں۔
قومیں وہی ترقی کررہی ہیں جن کی معیشت مضبوط ہے، جن کی شرحِ نمو فزوں تر ہے، کووڈ-19 نے بھی سب سے زیادہ معیشتوں کو ہی متاثر کیا ہے اہل حکومتوں نے صحت کو ترجیح دی، لیکن معیشت کو نظر انداز نہیں کیا۔ جب یہ یقین ہوگیا کہ اب کورونا کے ساتھ ہی دن رات گزارنے ہیں تو قوموں نے معیشت کو مضبوط کرنا شروع کردیا۔
ماہرین معیشت کہتے ہیں کہ کی صورت گری ہورہی ہے کہ ایک طرف سے گراف نیچے آیا تو اب وہ پہلے نیچے سے اوپر سابقہ مقام پر لے گئے ہیں، اب شرح نمو بڑھ رہی ہے، اس کی گتھی کو سلجھانے کے لیے میں نے رخ کیا سینٹر پوائنٹ کی عمارت کا۔
سابق وزیر خزانہ شوکت ترین کی انگلیاں پاکستانی معیشت کی نبض پر رہتی ہیں، بہت کھل کر بے باکی سے حقائق بیان کرتے ہیں، موجودہ حکومت کی کئی مرکزی مشاورتی کمیٹیوں میں شامل رہے ہیں، ان کو زیادہ آگہی ہے اور اس لیے زیادہ تشویش بھی، بلڈنگ کی 22 ویں منزل سے شہر قائد اپنی کچی آبادیوں اور امیر بستیوں کے واضح فرق کے ساتھ بہت شفاف انداز میں نظر آتا ہے۔
میں نے اپنے ذہن سے بوجھ ہٹانے کے لیے سلام دعا کے بعد پہلا سوال یہی کر ڈالا، پاکستانی معیشت کس حال میں ہے، وہ پہلے سے بھرے بیٹھے تھے، ’’پاکستانی معیشت ’اسٹیٹس کو‘ میں ہے، اور یہ بہت ہی خطرناک مرحلہ ہے، ملک کو درپیش بنیادی مسائل پر فیصلے نہیں کیے جارہے ہیں۔
ٹال مٹول جاری ہے، بے روزگاری پہلے سے ہی تھی کووڈ 19 کی وجہ سے اور بڑھ گئی ہے، مزید لاکھوں پاکستانی غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں، ایک سال میں صرف 12 ہزار دے کر سوچ لیا گیا کہ سال بھر بڑے بڑے کنبے گزارہ کر ہی لیں گے، سب سے نااہل سیکٹر پاور سیکٹر رہا ہے۔ جو یہ فیصلہ ہی نہ کرسکے کہ گیس کب درآمد کرنا ہے۔
کس چیز کی ضرورت کب ہوگی، اس شعبے میں چار بڑے دیوتا بیٹھے ہیں، اسد عمر، عمر ایوب، بابر ندیم اب تابش گوہر بھی، لیکن ہوا کیا ہے، یہ حالات سب کے سامنے ہیں، سارا بوجھ غریب آدمی پر ڈالا جا رہا ہے، کبھی پیٹرول کی قیمت بڑھائی جارہی ہے، کبھی گیس کی۔
کبھی بجلی کی، کسی وزارت میں کوئی ایک ذمہ دار نہیں ہے جو فیصلے کرے، میں پوچھتا ہوں کہ کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ وزیر اعظم اتنا نہ بولیں، ٹویٹ نہ کریں، شوکت صاحب کہتے ہیں، عمران خان کو ایک یہی کام بولنا تو آتا ہے، گزشتہ 22 سال سے بولنے کے علاوہ اس نے کیا کیا ہے۔ کوئی منصوبہ بندی۔ کوئی پالیسی۔‘‘
شوکت ترین عمران خان کے بہت قریب رہے ہیں، خان نے انہیں تھنک ٹینکوں، ٹاسک فورسز، مشاورتی کمیٹیوں میں ممبر بھی بنایا، سربراہ بھی، ان کا تجربہ اور مشاہدہ یہ ہے کہ مشاورتی کمیٹیاں، مشورے دیتی ہیں، لیکن ان پر عملدرآمد نہیں ہوا، خرابیاں بھی جوں کی توں رہتی ہیں، مسائل بھی۔
ڈاکٹر عشرت حسین سے بڑی توقعات تھیں، میری ان سے گفتگو رہتی ہے، وہ خود بھی مایوس ہیں، ہم بھی ان سے مایوس ہیں، ڈاکٹر عشرت بھی کہتے ہیں کہ وہ بہت سے پلان بناکر دے چکے ہیں، لیکن کوئی اس پر عمل ہی نہیں کرتا۔
اچھی حکمرانی کے لیے افسروں کا تسلسل کار ضروری ہوتا ہے، سب سے بڑے صوبے میں چھ بار چیف سیکرٹری اور آٹھ بار آئی جی تبدیل کردیے گئے، اس سے کلیدی افسروں کی حالات پر گرفت نہیں ہوپاتی۔
شوکت ترین کو پرائس کنٹرول کمیٹی میں بھی شامل کیا گیا، اب وہ بہت سی کمیٹیوں سے مستعفی ہوچکے ہیں، اور سمجھتے ہیں کہ ان میٹنگوں میں شمولیت وقت ضائع کرنا ہے۔ صدر اور وزیر اعظم میٹنگیں بلاتے ہیں۔ کوئی بہت ہی اہم ہو تو جاتے ہیں۔
اول تو بنیادی فیصلے بر وقت نہیں کیے جاتے، بلا ضرورت تاخیر کی جاتی ہے کیونکہ مشیر، وزیر، ترجمان بے شمار ہیں، Too Many Cooks Spoil The Broth- ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کو 117 سے 124 پر لے گئی ہے کہا جاتا ہے کہ نیب نے 487 ارب روپے وصول کیے ہیں، اس کی فہرست کیوں نہیں دی جاتی، اس میں 460 ارب تو ملک ریاض کے ہی ہیں۔
تاجروں صنعت کاروں کی انجمنوں سے با ضابطہ ایک جگہ مشاورت نہیں ہورہی ہے۔ اپنے طور پر یہ لوگ مل رہے ہیں۔ اوور سیز چیمبر۔ امریکن بزنس سے بھی کوئی حال احوال نہیں پوچھتا۔ میں پوچھتا ہوں۔ کیا انہیں ٹیم بدلنا چاہئے۔ وہ کہتے ہیں جو بھی بندے ہیں ان میں کسی ایک کو فیصلے کا اختیار ہو۔ مانیٹرنگ بھی وہ کرے۔
عملدرآمد اگر نہ ہو تو وہ بھی دیکھے، بھارت بنگلہ دیش سب کی شرح نمو بڑھ رہی ہے، ہم وی نہیں بنا پا رہے ہیں، کیونکہ فیصلے نہیں کررہے ہیں، معیشت اور نیچے جائے گی۔ بے روزگاری بڑھے گی۔
اپوزیشن سے تو حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ لیکن زوال پذیر معیشت اس حکومت اور ملک کے لیے بڑا خطرہ ہے۔