کانگریس حکومت ’بی جے پی کے نقش قدم پر۔ مبینہ گئو کشی کے معاملہ میں تین مسلمان این ایس اے( نیشنل سیکورٹی ایکٹ ) کی دفعات کے تحت گرفتار

ایسا لگتا ہے کے کانگریس لوک سبھا انتخابات سے قبل ٔہندوں کو قریب لانے کے لئےہندوتوا کی پا لیسی کو اپنا تے ہوئےبی جے پی کے نقش قدم پر تیزی سے گامزن ہے۔اس کام میں کمل ناتھ حکومت ’یوگی حکومت کی تقلید کر رہی ہے۔صحا فی فیصل فاروق کی رپورٹ کے مطانق مدھیہ پریش کے کھنڈوا میں مبینہ گئو کشی کے معاملہ میں تین مسلمانوں کو این ایس اے( نیشنل سیکورٹی ایکٹ ) کی دفعات کے تحت حال ہی میں گرفتار کیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا مدھیہ پریش میں برسر اقتدار آنے والی کانگریس حکومت بھی یوپی کی یوگی سرکار کے نقش قدم پر چلتی نظر آرہی ہے۔ کمل ناتھ حکومت نے گئو کشی کے۳/ملزمین ندیم، شکیل اور اعظم پر قومی سلامتی ایکٹ (این ایس اے) کا اطلاق کیا ہے۔ اس سے پہلے بی جے پی کی شیوراج سنگھ حکومت میں گئو کشی کے معاملہ میں ۲۲/مسلمانوں کو این ایس کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔این ایس اے دہشت گردی اور شاطر مجرموں کو جرم کرنے سے قبل روکنے کے ضمن میں کام آتا ہے۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ مبینہ گئو کشی معاملہ میں این ایس اے جیسے سخت قانون کا استعمال کیوں کیا گیا؟ اس سوال کا جواب دینے کے بجائے کانگریس ترجمان ریاستی حکومت کے دفاع میں کہتے ہیں کہ حکومت گائے کو لے کر سنجیدہ ہے اور گایوں کی حفاظت کیلئے صحیح کام کرے گی جو کہ پچھلی حکومت نے نہیں کیا۔ آئندہ چند مہینوں میں لوک سبھا انتخابات ہونے جا رہے ہیں، لہٰذا کانگریس کو یہ مسئلہ کچھ خاص نظر آ رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ پورا سسٹم اتنا مستعد ہے۔مدھیہ پردیش میں اقتدار میں تبدیلی کے باوجود مسلمانوں کے تئیں حکومت کے طور طریقے بدلتے نظر نہیں آ رہے ہیں۔ غور طلب ہے کہ گئو کشی کے الزام میں گرفتار کئے گئے ۳/مسلم نوجوانوں کے خلاف این ایس اے کے تحت کارروائی کی وجہ سے شدید تنقیدیں ہو رہی ہیں مگر ان تمام نکتہ چینیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے مدھیہ پردیش پولیس نے’’غیر قانونی طور پر‘‘گائے لے جا رہے دو نوجوانوں پر بے تکلفی سے این ایس اے لگا دیا ہے۔ ایسے معاملات میں دیکھا گیا ہے کہ بے قصوروں (خصوصاً دلتوں اور مسلمانوں) کو بلا وجہ پریشان کیا جاتا ہے اور بغیر کسی جانچ یا لیب ٹیسٹ کے گوشت کو گائے کا مان لیا جاتا ہے۔دوسرے معاملہ میں کوتوالی پولیس اسٹیشن کے انچارج اجیت تیواری نے بتایا کہ دو ملزمین محبوب خان اور رودومل مالویہ جو بالترتیب اُجین ضلع کے لمبی کھیڑ اور اگرمالوا کے رہنے والے ہیں، کو گائے کی اسمگلنگ اور عوامی نظم و نسق کو خراب کرنے کی پاداش میں این ایس اے کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔ الزام ہے کہ یہ لوگ اپنی گاڑی میں مویشیوں کو غیر قانونی طور پر لے جا رہے تھے جس کے خلاف عوام نے احتجاج کیا اور حالات کشیدہ ہونے کے بعد پوری مارکیٹ بند ہو گئی تھی۔ خبروں کے مطابق یہ دونوں گئو کشی نہیں کر رہے تھے بلکہ جانوروں کے تاجرہیں۔حالیہ دنوں کانگریس کے رویہ میں آنے والی تبدیلی (سافٹ ہندوتو کی قبولیت)ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ کیا یہ قدم محض اِس لئے اٹھایا جا رہا ہے تاکہ اس کا فائدہ سیدھے طور پر لوک سبھا انتخابات میں اٹھایا جا سکے؟ کیا کانگریس بھی بی جے پی کی راہ پر چل رہی ہے؟ کیا ایسا کر کے کانگریس ہندوؤں کو اپنے قریب لانے کا موقع تلاش رہی ہے؟ کیا کانگریس ایسا کرنے میں کامیاب ہو پائے گی؟ ان سوالوں کے درمیان دلچسپ پہلو یہ ہے کہ گئو کشی کے الزام میں مسلم نوجوانوں کے خلاف این ایس اے کے تحت کارروائی کے خلاف خود کانگریس پارٹی میں آوازیں اٹھ رہی ہیں۔نئی دہلی میں کانگریس اقلیتی سیل کے ایک پروگرام میں مہاراشٹر سے تعلق رکھنے والے رُکن اسمبلی عارف نسیم خان نے اس معاملہ کو پوری شدت سے اُٹھایا تھا، وہیں راجیہ سبھا ایم پی اور کانگریس کے سینئر لیڈر پی چدمبرم نے ملزمین کے خلاف این ایس اے لگائے جانے کو غلط بتایا۔ اس سے پہلے مدھیہ پریش میں کانگریس کے سینئر لیڈر اور سابق وزیراعلیٰ دگ وجے سنگھ نے زیر بحث معاملے میں این ایس اے کے اطلاق کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے کہا کہ ملزمین پر گئو کشی کے لئے موجود قانون کے تحت کارروائی کی جانی چاہئے تھی، این ایس اے نہیں لگانا چاہئے تھا۔ عارف نسیم خان کے اعتراض کو کانگریس ہائی کمان نے نہایت سنجیدگی سے لیا ہے۔بہرحال کمل ناتھ حکومت کے اس مسلم کش فیصلہ پر بہت زیادہ حیران ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اپنی انتخابی ریلیوں میں اُنہوں نے مدھیہ پردیش کی ہر پنچایت میں گئوشالا کے قیام جیسے اعلانات سے یہ بات ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی تھی کہ’’گئوونش‘‘کے تحفظ میں کانگریس پارٹی کسی طرح بی جے پی سے پیچھے نہیں۔ اگر کانگریس کو این ایس اے کا اطلاق کرنا ہی ہے تو اُن لوگوں پر کرنا چاہئے جو گائے کے نام پر کھلے عام نفرت اور تشدد پھیلاتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں