فری سافٹ ویئر موومنٹ آف انڈیا سے منسلک سرینواس کوڈالی کہتے ہیں کہ ڈیجیٹل انڈیا پروگرام کا مقصد ’پیدائش سے لے کر موت تک ہر کسی کا پیچھا کرنا ہے۔ آدھار سے جڑی کوئی بھی چیز بالآخر وزارت داخلہ، پولیس اور نگرانی کرنےوالی ایجنسیوں کےپاس پہنچ جاتی ہے۔‘
انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں حکومت نے ڈیجیٹل انڈیا پروگرام کو ترجیح دی ہے تاکہ زمین کے مالکانہ حقوق سے لے کر صحت کے ریکارڈ اور رقم کی ادائیگی تک ہر چیز کو ڈیجیٹلائز کرکے کارکردگی کو بہتر بنایا اور فلاحی سکیموں کو ایک دھارے میں لایا جا سکے۔
لیکن اس ڈیجیٹل نظام سے نگرانی اور پرائیویسی سے متعلق بہت سے خدشات بھی سامنے آئے ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ایسے ہی ایک واقعے میں انڈیا کے شہر حیدرآباد میں پولیس نے دعویٰ کیا کہ انہوں سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے قدیر خان نامی ایک شخص کو گرفتار کیا، جن کے بارے میں شبہ تھا کہ انہوں نے ایک چین چھینی تھی۔
کچھ دن بعد انہیں رہا کر دیا گیا، لیکن حراست کے دوران مبینہ طور پر آنے والے زخموں کے علاج کے دوران ان کی موت واقع ہو گئی۔
پولیس کا کہنا تھا کہ قدیر خان کو اس لیے گرفتار کیا گیا کیونکہ وہ سی سی ٹی وی ویڈیو میں نظر آنے والے شخص جیسے لگ رہے تھے۔
ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کے سیدولو نے کہا: ’جب یہ پتہ چلا کہ قدیر خان وہ شخص نہیں، جس نے جرم کیا، تو انہیں رہا کر دیا گیا۔ سب کچھ قانونی طریقہ کار کے مطابق ہوا تھا۔‘
لیکن انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ 36 سالہ قدیر کی واضح طور پر غلط شناخت کی گئی تھی جو کہ ریاست تلنگانہ میں سی سی ٹی وی کے بہت زیادہ استعمال کی وجہ سے ایک بڑھتا ہوا خطرہ ہے۔ اس ریاست میں نگرانی کرنے والی ٹیکنالوجی کا سب سے زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔
تلنگانہ میں چہرے کی شناخت کے استعمال کو چیلنج کرتے ہوئے 2021 میں مقدمہ دائر کرنے والے انسانی حقوق کے کارکن ایس کیو مسعود نے کہا: ’ہم کئی برسوں سے متنبہ کر رہے ہیں کہ سی سی ٹی وی اور چہرے کی شناخت کرنے والی ٹیکنالوجی کا لوگوں کو ہراساں کرنے کے لیے غلط استعمال کیا جا سکتا ہے اور یہ لوگوں کی غلط شناخت کر سکتے ہیں۔‘
انہوں نے تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کو بتایا: ’اس کیس نے یہ ظاہر کر دیا ہے کہ یہ کتنی نقصان دہ ہو سکتی ہے۔‘
انڈیا میں ملک بھر میں سکولوں، ہوائی اڈوں، ریلوے سٹیشنوں، جیلوں اور گلیوں میں سی سی ٹی وی اور چہرے کی شناخت کرنے والی ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھ رہا ہے کیونکہ حکام جرائم کی روک تھام اور گمشدہ بچوں کی شناخت کے لیے ملک گیر نظام نافذ کر رہے ہیں
نگرانی کا واحد طریقہ نہیں!
انڈیا میں بائیو میٹرک نیشنل آئی ڈی آدھار کارڈ، جس کے تحت تقریباً 1.3 ارب آئی ڈی جاری کیے گئے ہیں، بینک اکاؤنٹس، گاڑیوں کی رجسٹریشن، سم کارڈ اور ووٹر لسٹوں سمیت درجنوں ڈیٹا بیس سے منسلک ہے، جبکہ نیشنل انٹیلی جنس گرڈ کا مقصد شہریوں کی پروفائل کے لیے سرکاری ایجنسیوں کے تقریباً دو درجن ڈیٹا بیس کو جوڑنا ہے۔
دوسری جانب سوشل میڈیا کی زیادہ نگرانی اور دنیا میں سب سے زیادہ انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ کی پولیسنگ میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ انہیں گورننس کو بہتر بنانے اور پولیس کی کمی والے ملک میں سکیورٹی کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے، لیکن ٹیکنالوجی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس ٹیکنالوجی کا جرائم کے ساتھ تعلق بہت کم ہے، اس سے رازداری کی خلاف ورزی ہوتی ہے اور اس کے ذریعے کمزور لوگوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔
دہلی میں ایک ایڈوکیسی گروپ انٹرنیٹ فریڈم فاؤنڈیشن کی قانونی مشیر انوشکا جین نے کہا: ’ہر چیز کو ڈیجیٹلائز کیا جا رہا ہے، لہذا ایک شخص کے بارے میں بہت ساری معلومات جمع کی جا رہی ہیں، جو مناسب حفاظتی اقدامات کے بغیر حکومت اور نجی اداروں کے لیے قابل رسائی ہے۔
بقول انوشکا: ’ایک ایسے وقت میں جب لوگوں کو ان کے مذہب، زبان اور جنسی شناخت کی وجہ سے نشانہ بنایا جاتا ہے، ان کی معلومات کی آسانی سے دستیابی بہت نقصان دہ ہوسکتی ہے۔ اس کے نتیجے میں لوگوں کو فلاحی سکیموں، پبلک ٹرانسپورٹ تک رسائی یا جب بھی حکومت ضروری سمجھے تو احتجاج کرنے کا حق بھی چھن سکتا ہے۔‘
پیدائش سے موت تک
اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق آئندہ ماہ اپریل میں انڈیا دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن جائے گا اور 1.43 ارب سے زائد آبادی کے ساتھ چین کو پیچھے چھوڑ دے گا۔
وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں حکومت نے ڈیجیٹل انڈیا پروگرام کو ترجیح دی ہے تاکہ زمین کے مالکانہ حقوق سے لے کر صحت کے ریکارڈ اور رقم کی ادائیگی تک ہر چیز کو ڈیجیٹلائز کرکے کارکردگی کو بہتر بنایا جاسکے اور فلاحی سکیموں کو ایک دھارے میں لایا جاسکے۔
آدھار (جسے دنیا کا سب سے بڑا بائیو میٹرک ڈیٹا بیس کہا جاتا ہے) ان میں سے بہت سے اقدامات کی معاونت کرتا ہے اور یہ فلاحی کاموں، پینشن اور روزگار سکیموں کے لیے ضروری ہے، حالانکہ سپریم کورٹ نے 2014 کے ایک فیصلے میں کہا تھا کہ فلاحی پروگراموں کے لیے اسے لازمی قرار نہیں دیا جا سکتا۔
وسیع پیمانے پر اسے اپنانے کے باوجود، لاکھوں لوگوں کو غلط تفصیلات یا فنگر پرنٹس کی وجہ سے اپنے آدھار کارڈ کے ساتھ مشکلات پیش آتی ہیں، جو درست نہیں ہوتے اور انہیں اہم سروسز سے محروم رکھا جاتا ہے۔
فری سافٹ ویئر موومنٹ آف انڈیا کے سرینواس کوڈالی نے کہا: ’حکومت کا دعویٰ ہے کہ آدھار سے منسلک کرنے سے گورننس بہتر ہوتی ہے، لیکن اس سے مطلق العنان معاشرہ جنم لے گا کیونکہ حکومت ہر فرد کے بارے میں سب کچھ جانتی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’اس کا مقصد پیدائش سے لے کر موت تک ہر کسی کا پیچھا کرنا ہے۔ آدھار سے جڑی کوئی بھی چیز بالآخر وزارت داخلہ، پولیس اور نگرانی کرنے والی ایجنسیوں کے پاس پہنچ جاتی ہے، اس لیے حکومت کے خلاف اختلاف رائے بہت مشکل ہو جاتا ہے۔‘
انڈین وزارت داخلہ نے اس حوالے سے تبصرہ کرنے کی روئٹرز کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
ڈیجیٹائزیشن کا تازہ ترین سلسلہ ’ڈیجی یاترا‘ ہے، جسے دسمبر میں دہلی، بنگلورو اور وارانسی ہوائی اڈوں پر شروع کیا گیا تھا۔ اس کی وجہ سے مسافر ہوائی اڈوں پر چیک اِن کے لیے اپنے آدھار کارڈ اور چہرے کی شناخت کا استعمال کر سکتے ہیں۔
شہری ہوا بازی کی وزارت نے کہا ہے کہ ڈیجی یاترا سے ’انتظار کا وقت کم ہوجاتا ہے اور بورڈنگ کے عمل کو تیز تر اور زیادہ ہموار بنایا جاتا ہے۔‘
سرینواس کوڈالی نے کہا کہ جو لوگ ڈیجی یاترا کا استعمال نہ کرنے کا انتخاب کرتے ہیں، انہیں شک کی نگاہ سے دیکھا جا سکتا ہے اور ان کی اضافی جانچ کی جا سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سفری تفصیلات سمیت یہ اعداد و شمار دیگر سرکاری ایجنسیوں کے ساتھ بھی شیئر کیے جاسکتے ہیں اور ان کا استعمال لوگوں کو نو فلائی لسٹ میں ڈالنے اور کارکنوں، صحافیوں اور مخالفین کو سفر کرنے سے روکنے کے لیے کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ پہلے ہی ہو رہا ہے۔
انڈین شہری ہوا بازی کی وزارت نے اس حوالے سے تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
حاضری ایپس
انڈیا میں سب سے کم تنخواہ لینے والے سرکاری شعبے کے کچھ ملازمین کو حکومت کے نگرانی کے میکانزم کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔
ملک بھر میں میونسپل ملازمین کو ایسی گھڑیاں پہننی پڑتی ہیں جن میں جی پی ایس لگا ہوا ہو، جو ایک کیمرا ہے جو سنیپ شاٹس لیتا ہے اور ایک مائیکروفون بھی، جو بات چیت کو سن سکتا ہے۔
گھڑیاں مرکزی کنٹرول روم کو ڈیٹا فراہم کرتی ہیں، جہاں عہدیدار ہر ملازم کی نقل و حرکت پر نظر رکھتے ہیں اور اعداد و شمار کو کارکردگی اور تنخواہوں سے جوڑتے ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد کارکردگی کو بہتر بنانا ہے، تاہم ملک بھر میں ملازمین نے اس نگرانی کے خلاف احتجاج کیا ہے۔
جنوری میں وفاقی حکومت نے کہا تھا کہ نیشنل موبائل مانیٹرنگ سافٹ ویئر (این ایم ایم ایس) ایپ نیشنل رورل ایمپلائمنٹ گارنٹی سکیم (این آر ای جی ایس) کے تحت تمام کارکنوں کے لیے لازمی ہوگی۔
ملک بھر میں دو کروڑ سے زیادہ مستفید ہونے والوں میں خواتین تقریباً 60 فیصد ہیں جنہیں ایک سال میں 100 دن کا کام ملتا ہے اور انہیں 331 انڈین روپے (4 ڈالر) تک کی یومیہ اجرت دی جاتی ہے۔
نئے نظام کے تحت نگران افسر، جسے ساتھی کہا جاتا ہے، کے لیے ضروری ہے کہ وہ حاضری کے ثبوت کے طور پر کام شروع اور ختم کرتے وقت مزدوروں کی تصاویر اپ لوڈ کرے۔ یہ کام پہلے ہاتھ سے رجسٹر پر حاضری کی صورت میں کیا جاتا تھا۔
غیر منافع بخش تنظیم پیپلز ایکشن فار ایمپلائمنٹ گارنٹی کی محقق رکشیتا سوامی کا کہنا ہے کہ اس کے لیے ساتھی، جو عام طور پر ایک خاتون ہوتی ہیں، کے پاس دن میں دو بار سمارٹ فون اور اچھا انٹرنیٹ کنکشن ہونا ضروری ہے، جو کئی دیہی علاقوں میں تقریباً ناممکن ہے۔
انہوں نے بتایا: ’اگر تصاویر اپ لوڈ نہیں کی جاتیں تو مزدوروں کو غیر حاضر سمجھا جاتا ہے اور انہیں کام کرنے کے پیسے نہیں ملتے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’خواتین اپنی تصاویر بنوانے میں ہچکچاہٹ کا شکار بھی ہوتی ہے۔ ان تصاویر کے ساتھ کیا ہوتا ہے، اس کے بارے میں کوئی شفافیت نہیں ہے – اس بات کا بہت زیادہ امکان ہے کہ ان کا استعمال چہرے کی شناخت کے الگورتھم کو تربیت دینے کے لیے کیا جا رہا ہے۔‘
سینکڑوں این آر ای جی ایس ملازمین دہلی میں احتجاج کر رہے ہیں اور مزدوری کی ادائیگی اور ایپ کو ختم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
دیہی ترقی کی وزارت نے کہا ہے کہ یہ ایپ نگرانی کے خدشات کو دور کیے بغیر کارکنوں کی ’زیادہ شفافیت اور مناسب نگرانی کو یقینی بنائے گی۔‘
پرائیویسی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ طویل عرصے سے التوا کا شکار ڈیٹا پروٹیکشن قانون، جو پارلیمنٹ میں منظوری کا منتظر ہے، بہت کم سہارا فراہم کرے گا کیونکہ یہ سرکاری ایجنسیوں کو بہت زیادہ استثنیٰ دیتا ہے۔
ریاست راجستھان میں، جہاں ملک میں سب سے زیادہ انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن ہے، ضلع اجمیر میں ایک نگران خاتون کملا دیوی کئی مہینوں سے این ایم ایم ایس ایپ کے ساتھ جدوجہد کر رہی ہیں۔
انہوں نے کہا: ’کئی دنوں تک کوئی نیٹ ورک نہیں ہوتا اور میں مزدوروں سے کہتی ہوں کہ وہ گھر چلے جائیں۔ اگر وہ کام کرتے ہیں تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ انہیں تنخواہ نہیں ملے گی۔ یہ ایپ روزگار کو برباد کر رہی ہے۔ ہمارے پاس دستی حاضری رجسٹر بہتر تھا۔‘
بشکریہ روئٹرز