عرب کر سر زمین پر چین کے قدم

جی سی سی کے سربراہ اجلاس میں چین کے صدر کی شرکت اور عرب چین سربراہ کانفرنس کو عالمی سیاست میں ایک نئے دور کا آغاز سمجھاجارہاہے۔ بعض مبصرین اس کو عالمی سیاسی نظام میں بڑی تبدیلی اور کچھ اس کو بڑی الٹ پھیر قراردے رہے ہیں۔ اس سے قبل اسی طرح کااجلاس امریکی صدر جوبائیڈن کے ساتھ ہوچکا ہے، مگر اس کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے۔اگرچہ یہ کانفرنس سعودی عرب میں عرب ممالک کے اہم ادارے جی سی سی کی چوٹی کانفرنس کے موقع سے تھی مگر سعودی عرب نے اس کانفرنس کو خطے کے دیگر ممالک کو شامل کرکے اس اہم خطے کو وسیع تر عالمی تناظر میں اہم رول ادا کرنے کی طرف بڑی پیش قدمی کی تھی مگر حالیہ چین عرب کانفرنس نے یہ ثابت کیا ہے کہ شایدعالمی سیاسی منظرنامہ توقع سے زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ بدل رہا ہے اور اس کی بازگشت نہ صرف ایشیا، افریقہ اور یوروپ اور مغرب سے بھی محسوس کی جارہی ہے۔ یہ پوراخطہ معدنی ذخائر خصوصاًپیٹرولیم وسائل سے مالامال ہے۔ اس سے پوری دنیا اس کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتی ہے۔ مگر اس خطے نے اپنے آپ کو محض تیل پیدا کرنے والے مالدار ملکوں کی ایما سے ابھار کر تجارت اور صنعت وحرفت کی مرکز کے بطور ترقی دینے اور اپنے خود کے انسانی وسائل کو اس نہج پرترقی دینے کی منصوبہ بندی کی ہے۔ سعودی عرب کے جواں سال ولی عہد اور وزیراعظم محمد سلمان نے اپنی مملکت کو جدید ترقیاتی خطوط پر توسیع دینے کا فیصلہ کیا ہے اوران کا وژن 2030 تک نہ صرف ان کے ملک بلکہ پورے خطے کی سیاست، معیشت اور جغرافیہ کو بدلنے والا ہے۔
عرب ملکوں کے سب سے بڑے گروپ جی سی سی خلیج کوآپریشن کونسل میں 6ممالک سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، بحرین، اردن اور کویت ممبران ہیں۔اور ایشیا کی سیاسی فوجی اہمیت کے نقطہ نظر سے اس اتحاد کو وہی طاقت حاصل ہے جو یوروپ میں ناٹو کو۔ دراصل عراق کے کویت پر حملہ کے بعد عرب ملکوں خاص کر ان چھوٹے ملکوں میں عدم تحفظ کا شدید احساس پیداہوا اوران ممالک کو لگا کہ ان ملکوں نے ابھی بھی کچھ نہیں کیا تو مستقبل میں صدام حسین کی قماش کا کوئی بھی ملک سربراہ و حکومت ان کی اینٹ سے اینٹ بجا دے گا۔ یہی وجہ ہے کہ جب امریکہ اور برطانیہ وغیرہ نے عراق پرفوجی کارروائی کی تو کوئی بھی ملک ان کا حلیف وہم نوا بن کر سامنے نہیں آیا۔ بلکہ فوجی کارروائی میں ساتھ بھی دیا اور کئی ممالک نے مغرب کو کھلے عام یا درپردہ رہ مدد کی۔ خلیجی ممالک چین کے ساتھ فری ٹریڈژون قائم کرنے کے لیے راضی ہوگئے ہیں۔ سرمایہ کاری کو فروغ دینا ہے اور پورے خطے کو تجارت اور صنعت وحرفت کا مرکز بنانا ہے۔ یہ ممالک پیٹرولیم مصنوعات کے علاوہ بنیادی ڈھانچہ کے میدانوں میں تعاون کی توسیع کے حامی ہیں۔
سعودی عرب اورخلیج کے دیگرممالک مصر کو اپناقریبی دوست اور حلیف قرار دیتے ہیں۔ عراق میں حالیہ سیاسی تبدیلیوں کے بعد خانہ جنگی سے توجہ ہٹاکر ترقیاتی پروجیکٹوں کو توسیع دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ سعودی عرب اورمصر کے ساتھ دیگر کئی امریکی ممالک عراق کو ایک مستقل پارٹنر کے طورپر دیکھ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کئی ترقیاتی پروجیکٹوں کو عملی جامہ پہنانے اور وہاں کی مصیبت زدہ آبادی کو راحت دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔
عرب ملکوں کی ضروریات غذا اور غذائی اجناس میں پچھلے دنوں یوکرین کے بحران کے بعد کئی افریقی ایشیائی ملکوں میں غذا کے بحران سے زمینی سطح پر کافی شدت محسوس کی گئی ۔ غربت، قحط سالی اور خانہ جنگی کے شکار کئی افریقی ممالک کا غذائی بحران شدید سے شدید ترہوگیا اور یہاں تک کہ اب ترقی کی مداخلت کے بعدجب یوکرین سے غذائی اجناس کی سپلائی شروع ہوئی تو روس نے ان ممالک کی حمایت حاصل کرنے کے لیے کئی ممالک کو مفت غذائی اجناس فراہم کرائی ہیں۔
عرب ممالک اور چین کے درمیان ان سمجھوتوں سے ایشیا میں نئی صورت حال کی طرف اشارہ ہے۔ اس سے قبل چین اور روس ایران کے حلیف اور حمایتی سمجھے جاتے تھے مگر اب صورت حال میں بڑی تبدیلیوں کا اشارہ ہے۔ روس اورچین اب صرف ایران کے بائیں بازوں کی حکومت والے ممالک کے ساتھ اتحاد پر اکتفا نہیں کررہے ہیں۔ انڈونیشیا میں گروپ 20ممالک کی سربراہ کانفرنس میں کناڈا اور چین کے سربراہان کے درمیان دوبدو بحث سے مغربی ممالک اوربھی الرٹ ہوگئے ہیں۔ کناڈا نے اس تکرار کے بعد اپنی تجارتی، فوجی اورسفارتی حکمت عملی میں بڑی اور فوری تبدیلیوں کااعلان کیا ہے اورچین کو درکنار کرنے کے لیے کناڈا نے جنوبی کوریا، جاپان اور ہندوستان جیسے ممالک کے ساتھ ہر سطح پر تعاون کو فروغ دینے کافیصلہ کیا ہے۔ ایشیامیںہندوستان کے ساتھ ٹکراؤ کو بھی ختم کرنے کا ارادہ کیا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان ہندوستان میںعلیحدگی پسند تحریک کو فروغ دینے کی کناڈا کی پالیسی کو بھی کنٹرول کرناپڑے گا۔ مگر عرب ممالک کے ساتھ تعاون بڑھا کر مغربی ممالک کی نیند حرام ہونے کا اندیشہ ہے۔
عربوں کو چین کی ہی نہیں بلکہ چین کو بھی عربوں کی ضرورت ہے۔ چین دنیا کی بہت بڑی اقتصادی طاقت ہے۔ دنیا کے خطے میں شمالی، جنوبی امریکہ اور افریقہ میں اس کی غیرمعمولی تجارتی شراکت داری ہے۔ ایسے حالات میں مغرب کے پیٹ میں مروڑ ہونا فطری ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں