اقلیتوں کے تحفظ کے لئے مخصوص قانون کی ضرورت

ایڈووکیٹ ابوبکر سباق سبحانی
حالیہ دنوں میں مسلم اقلیت کے خلاف علی الاعلان نسل کشی کی نفرت انگیز تقریریں، مسلمانوں و عیسائیوں کی عبادت گاہوں پر حملے اور پولیس و انتظامیہ کے ساتھ ہی عدلیہ کی خاموشی نے ایک بار پھر اس بحث کو ازسر نو جلا بخشی کہ کیا ہندوستان میں اقلیتوں خصوصاً مسلم سماج کے خلاف ظلم و زیادتی نیز استحصال کے بڑھتے ہوئے واقعات پر قدغن لگانے کے لیے کسی مخصوص قانون کی ضرورت ہے؟ اس سے قبل اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق فرقہ وارانہ پالیسیاں اور تنگ سیاسی ایجنڈوں کی وجہ سے پہلے سے ہی غیر مساوی سماج کے کمزور طبقات مزید درکنار کیے جارہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستانی سماج صدیوں سے فرقہ واریت کا شکار رہا، چاہے وہ فرقہ واریت ذات پات کی بنیاد پر رہی ہو یا مذہب اور رنگ و نسل کی بنیاد پر۔ آزادی کے بعد ایک عوامی و جمہوری دستور اور دستوری حکومت کی بنیاد رکھی گئی۔ اس دستور کا بنیادی مقصد بھی یہی رہا کہ صدیوں سے جس طرح پورا سماج مختلف غیر مساوی درجات میں منقسم ہے، اس کو ایک مساوی سماجی دھارے سے جوڑا جائے جہاں ہر ایک کو مساوی مواقع حاصل ہوں، ایک ایسا سماج تشکیل دیا جائے جہاں حکومتی پالیسیاں سماج کے پسماندہ طبقات کی فلاح و بہبود نیز ان کی آزادی و تحفظ کو پیش نظر رکھ کر بنائی جائیں تاہم حکومتیں اور ان کی پالیسیاں روز اول سے ہی ناکام رہیں جس کی وجہ شاید سماج کی صدیوں پرانی وہ ذہنیت تھی جو نئے دستور کے ساتھ بدل نہیں سکی تھی۔
ہندوستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں مختلف مذاہب، زبان، تہذیب، نسل اور ذات پات کے نظام پائے جاتے ہیں، ہر مذہب میں مختلف و متنوع رسم و رواج اور خیالات موجود ہیں۔ ہندو اکثریتی ملک میں ایک طویل مدت تک مسلم حکومت کی وجہ سے مسلم اقلیت میں ہونے کے باوجود شدت پسند ہندو تنظیموں اور جماعتوں نے مسلم اقلیت کو اکثریت کے سامنے ایک دشمن کی حیثیت سے پیش کیا، چنانچہ مسلم اقلیت کو ایک سیاسی حریف یا دشمن کے طور پر پیش کرکے سیاست کا ایک حربہ بنایا گیا، منظم انداز سے اس قوم کو تعصب و تشدد کا شکار بھی بنایا گیا۔
دلتوں کی سماجی پسماندگی کو دیکھتے ہوئے اور بی آر امبیڈکر کی ایک منظم کوشش کے تحت دلتوں کو تو دستور نے خصوصی مراعات فراہم کردیں تاہم مسلم و عیسائی اقلیتوں کی ناکام قیادت کی وجہ سے1950میں ہی یہ اقلیتیں حکومت کے تعصب کا شکار ہوگئیں جب ریزرویشن پرصدارتی آرڈر کے ذریعے مسلم و عیسائی دلتوں کو اس سے باہر کردیا گیا، یعنی ایک دلت جو صدیوں سے استحصال کا شکار رہا جب تک ہندو مذہب کا ماننے والا ہوگا اس کو ریزرویشن کی مراعات ملیں گی تاہم اگر وہی شخص جس کو پسماندگی کی وجہ سے مراعات ملی تھیں وہ عیسائی یا مسلمان ہوجاتا ہے تو اس کو حاصل تمام ترمراعات مذہب کی بنیاد پر چھین لی جاتی ہیں، یعنی اس کے ساتھ مذہب کے نام پر تعصب یا تفریق کا رویہ اختیار کیا گیا۔
فرقہ وارانہ تشدد اور فسادات کے واقعات ہندوستان کے لیے ہرگز نئے نہیں ہیں تاہم گزشتہ برسوں میں خصوصاً موجودہ دور حکومت میں جس طرح کا خوف و دہشت کا ماحول ہم دیکھ رہے ہیں، اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔ مسلم قوم کے خلاف فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات 1947 میں ملک کی تقسیم کے موقع پر ہوئے جو1980اور1990 کی دہائیوں میں مزید بڑھے جس کی ایک اہم وجہ بابری مسجد اور رام مندر کا تنازع تھا، تشدد پسند ہندوتو تنظیموں کامقصد اگر سیاسی طاقت حاصل کرنا تھا تو برسراقتدار سیاسی جماعت کے نرم رویہ اختیار کرنے کے پیچھے اکثریتی طبقات کی ناراضگی سے بچنے کی کوشش تھی، یہی وجہ ہے کہ کمیونل وائلنس بل پارلیمنٹ میں اکثریت کے باوجود پاس نہیں ہوسکا جب کہ کانگریس کے انتخابی منشور میں وعدہ کیا گیا تھا۔
دوسری طرف اقلیتی قوم عیسائی بھی فرقہ وارانہ تشدد کا شکار ہوتی رہی، ان کے اوپر الزام لگا کہ وہ اپنے مذہب کی تبلیغ کے ذریعے صدیوں سے ظلم و زیادتی کے شکار پسماندہ دلتوں و قبائلیوں کے مذہب کو تبدیل کرانے کی کوشش کررہے ہیں، عیسائی پادریوں پر حملے ہوں یا چرچ اور اس کی مذہبی سرگرمیوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کے واقعات نہ تو نئے ہیں اور نہ ہی اس میں کوئی کمی ہے بلکہ تبدیلیٔ مذہب کی روک تھام کے نام پر قوانین بناکر مذہب کی تبلیغ و تشریح کی دستوری آزادی پر نہ صرف پابندی عائد کرنے کی کوشش جاری ہے بلکہ عیسائیوں اور ان کے مذہبی مقامات و سرگرمیوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کے واقعات تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔
اقلیتی طبقات کے استحصال کی تاریخ ایک طویل عرصے پر محیط ہے، یہ استحصال صرف اکثریتی طبقے سے تعلق رکھنے والی شدت پسند سیاسی جماعتوں یا اداروں کے ذریعے ہی نہیں بلکہ حکومت و حکومتی اداروں میں بیٹھے ہوئے اقلیتی طبقات سے نفرت کرنے والے عناصر کے ذریعے زیادہ منظم انداز میں کیا گیا ہے، جنہوں نے نہ صرف استحصال کیا ہے بلکہ استحصال کرنے والی جماعتوں اور افراد کی سرپرستی و پشت پناہی بھی کی ہے جس کا اعتراف نہ صرف یکے بعد دیگرے بے شمار کمیشن کی رپورٹوں میں کیا گیا ہے بلکہ مختلف صوبوں کے ہائی کورٹ کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ نے بھی اپنے فیصلوں میں کیا ہے۔
ملک میں اقلیتوں کے استحصال کے اکثر و بیشتر واقعات کے پس منظر میں سیاسی فوائد یا سیاسی حربے روپوش ہوتے ہیں۔ ہمارے آزاد ملک میں عام انتخابات پہلی بار 1951 میں ہوئے اور ان انتخابات سے پہلے رپریزینٹیشن آف پیوپلس ایکٹ(1951) کا قانون بنا جس کی دفعہ123 اور اس کی ذیلی شقات میں صاف طور پر یہ درج کیا گیا کہ کسی بھی امیدوار یا اس سے منسلک کسی بھی شخص کے ذریعے مذہب، نسل، ذات، قوم یا زبان یا اس سے متعلق کسی بھی نشان، قومی جھنڈے یا کسی بھی طرح کے نفرت آمیز خیالات و جذبات کو بھڑکا کر مختلف طبقات کے درمیان مذہب، نسل، ذات، قوم یا زبان وغیرہ کی بنیاد پر ووٹ لینے کی کوشش کو کرپٹ پریکٹس تسلیم کیا جائے گا۔ لیکن افسوس کہ آج کا پورا سیاسی نظام اور اس کی سرگرمیاں نیز کسی بھی قسم کا میڈیا اور اس کا طریق کار ہمارے سامنے ہے جس کو نہ تو سماجی بھائی چارے کی فکر ہے اور نہ ہی قانون و عدلیہ کا خوف۔
دستور میں اقلیتی طبقات کے مذہبی حقوق سے متعلق اہم آرٹیکل 14,15,16,21,25,26,27,28,29,30 کے علاوہ انڈین پینل کوڈ کی دفعات153A، 295Aاور 296کے علاوہ کریمنل پروسیجر کوڈ میں بھی اہم دفعات موجود ہیں جن کے تحت اقلیت کے مذہبی حقوق کا تحفظ نیز کسی بھی قسم کے استحصال کی صورت کا بخوبی سامنا کرسکیں، ماب لنچنگ اور تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات کو لے کرسپریم کورٹ نے تحسین پونہ والا کے اہم فیصلہ میں صوبائی حکومتوں کے لیے اہم رہنما اصول پیش کیے تھے جن میں ایک مخصوص قانون بنانے کی بھی تجویز پیش کی تھی کہ فرقہ وارانہ تشدد یا اقلیتی طبقات کے استحصال اور ان کے ساتھ ہر طرح کے تشدد و تعصب کا سامنا کرنے کے لیے ایک منظم و مخصوص قانون کی اشد ضرورت ہے۔
ہمیں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ جن مسائل کا ہم تذکرہ کررہے ہیں یہ ایک سماجی مسئلہ اور قانوناً جرم کی حیثیت رکھتے ہیں، جب کہ کسی بھی جرم یا کرائم کی صورت میں ہمارے دستور و قوانین نے کریمنل جسٹس سسٹم بنایا ہے۔ بیشمار سرکاری تحقیقات اور رپورٹ سے ثابت ہے کہ پولیس کے ذریعے اقلیتی طبقے کی طرف سے ایف آئی آر درج کرنے میں مجرمانہ حد تک ٹال مٹول اور تاخیر، بلکہ بے شمار معاملات میں جھوٹی اور غلط ایف آئی آر جس کا سیدھا فائدہ ملزمین و مجرمین کو حاصل ہوتا ہے۔ ستم بالائے ستم جب متاثرہ افراد ایف آئی آر درج کرانے کے لیے عدالت کا رخ کرتے ہیں تو وہاں بھی تاخیر تادم اخیر ہوتی ہے۔ پولیس کا کام کیس کی ایماندارانہ تفتیش کرنا ہوتا ہے، تاہم یہ سچ ہے کہ جرائم اگر اقلیت کے خلاف سرزد ہوئے جس کے پس پشت سیاسی مقاصد ہوں تو صاف شفاف جانچ دور کی بات ہماری اعلیٰ عدالتوں کی فائنڈنگ ہے کہ پولیس پشت پناہی کرتے ہوئے مجرمین کو بچانے کی حتی المقدور کوشش کرتی ہے۔
نظام عدلیہ کا قیام امن و انصاف کا قیام یقینی بنانے کی غرض و غایت سے ہوا، انصاف کا نظام پائیدار بنانے کے کچھ بنیادی اصول ہیں جن میں اہم ترین ہیں کہ متاثر شخص کی حفاظت یقینی ہو، کریمنل مقدمات کی روح ان مقدمات کے گواہ ہوتے ہیں جن کی حفاظت انصاف کی حفاظت کے مانند ہے، مقدمات میں تاخیر کا مطلب انصاف دینے سے انکار کے مترادف تسلیم کیا جاتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ملک میں اقلیتی طبقات کی موجودہ صورت حال کے لیے فرقہ واریت ناسور بنتی جارہی ہے، اقلیتی طبقات کے خلاف حکومت اور حکومتی اداروں کا رویہ نیز ان کی پالیسیاں سیاسی مفاد کے لیے فرقہ وارانہ تشدد کی پشت پناہی کررہی ہیں، کسی بھی طرح کی کوئی جواب دہی کا نظام یا شکل موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے پولیس، انتظامیہ اور حکومتوں کے ساتھ ہی عدلیہ بھی اس مذہبی تشدد اور اقلیتی تحفظ کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کررہی ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں